خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے تو پھر پاکستان میں اسی پر خاص بحث کیوں؟ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے آخر ہم کیوں؟ ’’عورتوں کے حقوق کیا ہونے چاہئیں‘‘ ان پر ایک طویل بحث میں مبتلا ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ زمانہ جاہلیت کو جب یاد کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ عرب میں اسلام آنے سے پہلے بیٹیوں کے پیدا ہونے پر ان کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسلام کے ظہور کے بعد یہ رواج ختم ہوا۔
’’اور جب ان میں سے کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا وہ شرمندگی سے لوگوں سے نہ ملتا کہ یہ بری خبر کیسے بتائے۔ وہ یہ بھی سوچتا کہ اس بچی کو رکھوں یا مٹی میں دفن کر دوں اور اس کا فیصلہ غلط ہے۔ (القرآن) حضورؐ نے فرمایا ’’علم تمام مسلمانوں پر فرض ہے‘‘
جس سے کہ یہ واضح ہو گیا کہ مرد و عورت دونوں پر تعلیم حاصل کرنا لازم قرار دیا۔ 1400 سال پہلے لاتعداد خواتین سکالرز پائی جاتی تھیں جن میں سے کافی کا تعلق حضور پاکؐ کے اپنے خاندان سے تھا۔ ان میں خاص کر حضرت عائشہ صدیقہؓ تھیں جن کے ذریعے سے کافی تعداد میں اسلامی قوانین منتقل ہوئے۔ اسلام نے علم کا حق دیا جب حضور پاکؐ پر وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے سب سے پہلے اللہ کے پیغام کے بارے میں اپنی زوجہ حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کو بتایا۔ سب سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی ہستی حضرت خدیجہ تھیں اور عرب میں بہت کامیاب کاروباری خاتون تھیں۔ حضرت خدیجہؓ مکہ سے سیریا اور یمن کے درمیان تجارت کرتی تھیں۔ ان کا کاروبار قریش کے تمام ٹریڈرز سے بڑا تھا اور آپ تجارت میں شفافیت کی وجہ سے مشہور تھیں۔ اسلام نے عورت کو حق دیا ہے۔ایک بار حضرت محمدؐ کے پاس ایک خاتون آئی اور عرض کیا ’’میرے والد نے میری شادی زبردستی خاندان کو اونچا کرنے کے لیے میرے کزن سے کر دی ہے‘‘
حضرت محمدؐ نے اس لڑکی کی موجودگی میں ہی اس کے باپ کو بلوایا اور لڑکی سے کہا کہ کیا تم اس شادی کو ختم کرنا چاہتی ہو یا شادی شدہ رہنا چاہتی ہو؟ اس نے کہا ’’اے اللہ کے رسولؐ میں نے اپنے والد کا فیصلہ قبول کیا لیکن میں باقی عورتوں کو بتانا چاہتی تھی آپؐ کے وسیلے سے کہ وہ شادی کے لیے مجبور نہیں کی جا سکتیں‘‘
اللہ کا حکم ہے کہ ’’جب تم اپنی اولاد کو وراثت دو تو ایک بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہو گا۔‘‘ (القرآن)۔ وراثت کا حق قرآن میں واضح کیا گیا
رحمت اللعالمین نے خود کہا کہ جس گھر میں پہلے بیٹی پیدا ہو اس پر اللہ کی خاص رحمت ہے اور فاطمہؒؓ جب بھی کمرے میں داخل ہوتیں تو اللہ کے محبوب خود اپنی بیٹی کیلئے کھڑے ہو جاتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان قوم ہو کر بھی یہ سب باتیں بار بار یاد کروانی پڑتی ہیں کہ ہمارا دین عورت کے لئے وہ نہیں جو توڑ مروڑ کر بنا دیا گیا ہے۔ آخرکیوں بار بار اس پر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ ابھی بھی یہ سوچ موجود ہے۔ یہ تو بیٹیاں ہی پیدا کرے گی۔ بیٹی پیدا ہوئی ہے مٹھائی کیا بانٹیں۔ بیٹوں کی ماں قسمت والی ہوتی ہے۔ اٹھو بھائی کو جگہ دو۔ بھائیوں کے سامنے ایسے نہیں بولتے۔ فلاں کی بیٹی بہت بُری تھی بھائیوں سے حصہ لے لیا۔ زمین بیٹوں کو ملتی ہے۔ اب اس گھر سے مر کر ہی نکلو گی۔ اب سسرال کا گھر ہی تمہارا ہے۔ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے گھر کا کام کرو۔ اور بہت کچھ۔ اتنا کچھ کہ لکھو تو صفحے بھرتے جائیں۔ ہم کیسے اتنے چھوٹے دل و دماغ کے ہو سکتے ہیں۔
عورت کا عالمی دن ہے اپنے گھر سے ہی آغاز کیجئے اور اپنی بیٹی ، بیوی ، ماں ،بہن سے شروع کریں۔ ان کو ان کے حقوق دیں جو اسلام نے دئیے ہیں جو آئین پاکستان نے دئیے ہیں۔ معاشرے کو بدلنا ہے تو اپنی سوچ کو بدلیں۔ اپنی سوچ کو روشن کریں، وسیع کریں۔
٭…٭…٭
اندھیروں سے روشنی تلاش کر
Mar 09, 2020