پاکستانی سب جانتے ہیں لیکن

پاکستان وہ ملک ہے جس کے شہری ہر مسئلے کا حل جانتے ہیں ۔روز صبح سویرے ایسے پیغامات کی بھر مار موبائل فون پہ حملہ آور ہوتی ہے کہ جیسے کوئی بیماری بیماری ہی نہیں بلکہ ہر بیماری کا سو فیصد حل میرے ملک کے ہر بندے کے ہاتھوں میں ہے ۔یوں لگتا ہے کہ میرے پاکستانی دنیا کے مسائل کو دنیا سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔چین میں کرونا وائرس کی وباء پھیلنا شروع ہوئی تو چین اور دنیا کے سارے ملک اس وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر تلاش کرنا شروع ہوگئے ۔کہتے ہیں چین میں راتوں رات ایک بہت بڑا ہسپتال کھڑا کر دیا گیا جو چینی لوگوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن ہر جدت کے بعد ہر سائنسی تحقیق کے بعد دنیا کے سارے ملک قدرت کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ ہر سال یورپ اور خاص کر امریکہ میں سمندری طوفان تباہی و بربادی مچا دیتا ہے لیکن خود کو دنیا کی سپر پاور سمجھنے والا امریکہ اس قدرتی آفت کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے ۔چین کا بھی یہی حال ہوا ہے ۔چین بھی آج دنیا کی ایک بڑی طاقت بن کے سامنے آچکا ہے لیکن خدا جب چاہتا ہے کہ ’’کن‘‘ کی صدا بلند کرتا ہے اور دنیا کو ہلا کے رکھ دیتا ہے ۔جب سے چین میں کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہے میرے ملک میں میڈیا خاص کر سوشل میڈیا پر اس سے بچائو کے سینکڑوں علاج بتائے جارہے ہیں ۔ایسے ایسے علاج کہ بندہ سوچ کے پریشان ہوجائے۔دنیا میں ایمانداری میں ایک سو بیسیویں نمبر پہ آنے والے پاکستانی ایمان کی طاقت سے اس وبا سے بچ نکلنے کے لیے وظائف بیان کرتے ہیں اور کبھی دوسرے طریقوں سے اپنی قابلیت کا اظہار کرتے ہیں ۔پھر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میرے ملک کے لوگ سب جانتے بوجھتے ہوئے خود کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں ۔یعنی پاکستانی جانتے ہیں کہ دنیا میں ترقی کے لیے ہر شہری کو ایمانداری سے محنت کرنا پڑتی ہے لیکن بہت سے پاکستانی محنت کی بجائے چور دروازوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستانی جانتے ہیں کہ ترقی کے لیے ملکی معیشت کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن بہت سے پاکستانی ملکی معیشت میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔پاکستانی جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شہری حکومت کو ٹیکس دیتا ہے لیکن پاکستان کا ہر دوسرا شہری حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے ٹیکس سے بچنے کے لیے متبادل راستے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔پاکستان کے لوگ جانتے ہیں کہ جب تک مزدور خوشحال نہ ہو ,وہ دل سے محنت نہیں کرتا اور محنت نہ کرنے سے کارخانے اور فیکٹریاں کبھی مقررہ وقت میں اجناس تیار نہیں کر سکتیں۔لیکن پاکستانی کارخانوں فیکٹریوں میں مزدور کو کوئی پوری مزدوری دینے کو تیار نہیں ہے ۔پاکستانی جانتے ہیں کہ سب کا رازق اللہ پاک ہے لیکن یہاں کی اکثریت چور بازار،منافع خور،ملاوٹ اور اچھا مال دکھا کے غلط مال بیچنے والوں کی ہے۔پاکستانی جانتے ہیں قانون ان کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن پاکستانی قانون پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ عام پاکستانی جانتے ہیں کہ ہیلمٹ ان کی جان بچانے کے کام آتا ہے لیکن یہاں موٹر سائیکل چلانے والے ہیلمٹ پہننے کی بجائے پولیس سے بچ بچا کے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پاکستانی جانتے ہیں کہ سڑک، گاڑی اپنی لائن میں چلانے، دائیں بائیں مڑتے وقت اشارے استعمال کرنے سے حادثات سے بچا جاسکتا ہے لیکن پاکستانیو ںکی اکثریت سڑک پہ اندھا دھند گاڑیاں دوڑا رہی ہوتی ہے۔پاکستانی جانتے ہیں کہ جرم سرزد ہونے پر قانون سے تعاون کر نا چاہیے مگر یہاں ملزم قانون کے شکنجے میں آنے سے پہلے کسی کو فون ملا کے پولیس افسران کے کانوں سے لگا کے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی جانتے ہیں کہ اس ملک کے بڑے لیڈروں کے بچے دوسرے ملکوں کے شہری بن جاتے ہیںان کا کاروبار ان کی شادیاں باہر ملکوں میں ہوتی ہیں ۔ لیکن پاکستانی انہی سیاست دانوں کے آگے بھنگڑے بھی ڈالتے رہتے ہیں ۔پاکستانی جانتے ہیں کہ اس ملک کاہر سیاستدان اور ہر دوسرا بڑا افسر دوران ملازت بیرون ملک جائیدادیں بنارہاہے لیکن پاکستانی پھر بھی ان سیاستدانوں اور آفیسرز کو جھک جھک کے سلام کرتے ہیں ۔موت کا ایک دن مقرر ہے اور جب وہ وقت آجانا ہے تو کوئی تدبیر کوئی حفاظتی اقدام اور کوئی وظیفہ اسے ٹال نہیں سکتا ہے ۔سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے پیغامات بھجنے کی بجائے بہتر ہو کہ میرے ملک کے ہونہار لوگ خود کوئی کتاب پڑھیں اور اپنے سے جڑے لوگوں کے لیے آسانیاں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ میرے ملک کے زیادہ لوگوں کوسوشل میڈیا کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں ہے‘ ہم میں سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال صرف وقت گزاری کے لیے اور نئے نئے دوست بنانے کے لیے کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...