بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل پی جی کے مینن کی قیادت میں بھارتی فوج اور آئی ٹی بی پی کے سینئر افسروں کے وفد اور چینی پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان کمانڈر سطح کے 10 ویں دورکے مذاکرات میں طے پایا کہ چین اور بھارت دونوں ہی پیچھے ہٹ کر اپنی پرانی والی پوزیشن پر چلے جائیں گے۔اہم کمانڈر سطح کی میٹنگ میں مشرقی لداخ خطے میں گوگرا، ہاٹ اسپرنگس اور Depsang میدانی علاقوں میں متنازعہ پوائنٹس سے فوج کو مزیدپیچھے ہٹنے پر رضامندی ہوئی۔ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان گزشتہ سال جون میں لداخ کے علاقے میں سرحدی جھڑپ کے بعد کشیدگی جاری تھی۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملک 1962ء میں ایک جنگ بھی لڑ چکے ہیں اور ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے پر سرحدوں پر خلاف ورزی کے الزمات عائد کرتے آئے ہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے تاہم تنازع بھارت کے لداخ کے علاقے میں سرحد پر ہے جو تبت کے ساتھ لگتا ہے۔گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ان کا ملک چین کے ساتھ پینگونگ جھیل کے علاقے سے افواج کی واپسی پر رضامند ہو گیا ہے۔ فوجوں کی واپسی کا عمل ایک اہم پیشرفت ہے جو کہ متنازع مغربی سرحد پر دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی ایک مضبوط نقطۂ آغاز فراہم کیا ہے۔تاہم بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں نو ماہ سے جاری سرحدی تنازع کو حل کرنے کے مقصد سے معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فوجیں اپنی پوزیشن سے واپسی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان نو ماہ کے دوران بھارت کا زیادہ نقصان ہوا اور سمجھوتے میں بھی اس کی کمزوری نظر آئی۔بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھارت کا علاقہ چین کے حوالے کر کے چین کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔ اسٹریٹجک اہمیت والے جن علاقوں پر چین قابض ہے اس کے بارے میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کچھ نہیں کیا۔ کیلاش رینج سے فوج کو پیچھے ہٹنے کو کیوں کہا گیا۔ وزیر اعظم نے فنگر تھری سے فنگر فور تک کی زمین چین کو دے دی۔گوکہ راہول گاندھی کے بیان پر وزارت دفاع سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بھارت کا علاقہ فنگر فور تک ہے۔ بھارت کے نقشے میں اس علاقے کو بھی بھارت کا علاقہ دکھایا جاتا ہے جو چین کے قبضے میں ہے اور تقریباً 43ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ بھارت کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) فنگر ایٹ تک ہے نہ کہ فنگر فور تک۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت فنگر ایٹ تک گشت کرنے کے مطالبے کا اعادہ کرتا رہا ہے۔ لیکن مذاکرات میں یہ طے ہوا کہ چین واپس اپنی پوزیشن پر جائے گا اور بھارت بھی فنگر ایٹ سے پیچھے ہٹ کر فنگر تھری پر چلا جائے گا۔ فنگر تھری سے فنگر ایٹ تک کا علاقہ نو مین لینڈ شمار ہوگا۔ یوں دیکھا جائے تو بھارت نے اپنا بہت سا علاقہ چھوڑا ہے جبکہ چین ایل اے سی پر ہی براجمان ہے۔ سرحدی کشیدگی کے دوران گلوان وادی میں خونی جھڑپ اور متعدد ہلکی پھلکی جھڑپوں کے باوجود یہ معاہدہ کیسے ہوا اس سوال پر سینئر دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے دونوں ملکوں پر اندرونی دباؤ تھا۔سابق ایئر چیف مارشل کپل کاک کا کہنا ہے کہ ابھی یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ معاملہ مکمل طور پر حل ہوگیا ہے۔ ابھی اس میں وقت لگے گا اور خود وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ابھی کئی تصفیہ طلب معاملے ہیں جن کو حل کرنا ہے۔ اجے شکلا کا کہنا ہے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی علاقے میں بھارتی فوج نے اچھی پوزیشنوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس سے بھارت کوکافی فائدہ تھا۔جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو دونوں جانب سے کچھ نہ کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا بھارت اور چین دونوں نے کچھ نہ کچھ چھوڑا ہے۔ ہاں بھارت کو ہٹنا پڑا ہے اور یہ بات اس کے مفاد میں نہیں ہے۔اس تنازعہ کے دوران بھارت کو اقتصادی اور فوجی نقصان ہوا ہے۔ بھارتی فوج کے دو ڈویژن پورے موسم سرما میں لداخ کے کیلاش رینج میں تعینات رہے۔ اس پر کافی اخراجات ہوئے اورجانی نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔کپل کاک اجے شکلا کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دوران دونوں ملکوں کا نقصان ہوا ہے لیکن بھارت کو زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا۔ کیونکہ بھارت ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کی معیشت چین کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور بھارت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ وہ چین جیسے ملک کا مقابلہ کر سکے۔بھارت کے رواں سال بجٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ہمیں چین سے مقابلہ کرنے کیلئے 30 ہزارکروڑ کا ساز و سامان لانا پڑا۔ بھارت یہ کہتا رہا ہے کہ تمام متنازع علاقوں سے فوجیوں کی واپسی ہو گی لیکن معاہدے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی بھارت کی کمزوری ہے کہ فوجوں کی واپسی کے بارے میں چین کے بیان کے ایک روز بعد بھارت نے بیان دیا۔حالانکہ اس سلسلے میں ایک مشترکہ بیان جاری ہونا چاہئے تھا۔دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ کیسے ہوا اس سلسلے میں چین کی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی تفصیلی بیان سامنے نہیں آیا۔
بھارت نے اپنی سرزمین چین کو دے دی؟
Mar 09, 2021