انتہا ہو گئی!

سب سے پہلے میں اسلام آباد سینٹ کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی جیت پر انہیں مبارکباد اور یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میرا تجزیہ غلط نکلا مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ شرافت، عزت اور اخلاقیات پیسے کے مقابلے میں چاروں شانے چت ِ گر جائیں گے۔ کل جب کوئی طالع آزما جمہوریت کی بساط کو لپیٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے میرے عزیز ہم وطنو کہے گا تو اس کی تقریر میں گذشتہ کچھ عرصے کے تلخ واقعات کے ساتھ 3 اور 6 مارچ کا ضرور ذکر ہو گا۔ مثال کے طور پر پی ڈی ایم کی تشکیل اور ان کے مختلف جلسوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ضرور بتایا جائے گا کہ ان جلسوں میں  سیاسی قیادت نے  عسکری قیادت پر ایسے حملے کیے کہ جس کا ہمارا دشمن بھی نہ سوچ سکتا تھا۔  منصوبہ بندی یہ تھی کہ ان دونوں عسکری شخصیات کو اس قدر دبائو میں لایا جائے کہ یہ نیوٹرل ہو جائیں اور پھر 3 مارچ کو سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حیدر گیلانی کی وڈیوز منظرِ عام پر آئیں، مگر سب خاموش۔ پرویز اشرف نے ببانگِ دیل کہا کہ ہم ٹوکن منی ادا کر چکے ہیں اور وعدوں کی تکمیل پر باقی ماندہ رقوم ادا کریں گے۔ مگر سب خاموش، آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے، نوٹوں کی بوریاں کھول دیں، مگر سب خاموش، مریم صفدر نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں ’’ن‘‘ کی ٹکٹ چلیں، مگر سب خاموش۔ اس سے قبل گورنمنٹ نے سپریم کورٹ میں بہت کوشش کی کہ اوپن بیلٹ کے تحت الیکشن ہوں ، کامیابی نہ ہوئی مگر الیکشن والے دن ساری وارداتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی سب خاموش۔ جب حفیظ شیخ ہار گئے تو اپوزیشن اس تیاری میں تھی کہ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لائیں گے مگر عمران خان نے نہایت جراتمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے بذاتِ خود اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا اور پھر چھ مارچ کو 178 ووٹ حاصل کر کے ناقدین کا منہ بند کر دیا۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ حکمران جماعت جسے تین دن قبل شکست سے دوچار کیا گیا تھا ان کا حق تھا کہ وہ اسلام آباد میں اپنی جیت کی خوشی منا سکیں، مگر ’’ن‘‘ والوں کو یہ بھی گوارہ نہ ہو سکا۔ اور تو اور شیخ رورحیل اصغر جیسے بندے بھی گالیاں دے رہے تھے۔ مرتضیٰ عباسی بھی اپنی زبان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ مصدق ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں گمان ہوتاتھا کہ واقعی اس جماعت کے کارکنوں نے اپنی قیادت کے کہنے پر سب سے عدالتِ کی کس طرح تضحیک کی۔ ججوں کو کس قدر زد و کوب کیا اور بالآخر اسی کش مکش میں اپنی حکومت گنوائی۔ فاضل مقرر اپنی تقریر میں یہ ضرور کہے گا کہ 3 مارچ کا اجلاس حلال اور 6 مارچ کا اجلاس حرام کیسے ہوگیا کہ جس کے بارے میں پی ڈی ایم کے راہنما یہ کہتے ہیں کہ نہ اس اجلاس کو مانتے ہیں اور نہ اس اعتماد کے ووٹ کو۔ اسی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو جتایا وہ درست مگر اعتماد کا ووٹ غلط۔ دوسری بات پی ٹی آئی کی خاتون اُمیدوار فوزیہ ارشد نے 174 ووٹ لیے وہ درست مگر عمران خان نے اعتماد کے 178 ووٹ لیے تو وہ گن پوائنٹ پر۔ ایسے حالات میں آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا جمہوریت مزید قائم رہ سکتی ہے اور کیا جمہوری نظام مزید پنپ سکتا ہے؟ دنیا جانتی ہے کہ آصف زرداری پہلے ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ یوں رفتہ رفتہ انہوں نے دنیا بھر میں دولت اور جائیدادوں کے ڈھیر لگا لیے۔ اسی طرح شریف برادران نے بھی تیس سال میں کرپشن کی انتہا کر دی۔ ان کی طرف انگلی اٹھائی جائے تو وہ غلط، ان سے منی ٹریل مانگی جائے تو جمہوریت خطرے میں، ملک کے کس ادارے کو انہوں نے بدنام نہ کیا ہو! ججوں پر شدید قسم کے ذاتی حملے، اداروں کی بے توقیری اور پارلیمنٹ کے وقار کی بھی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ تقریر تیار کرنے والے کے لیے یہ سب میٹریل بہ آسانی تیار ہو رہا ہے۔ اور کل سب باتوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم سے پوچھا گیاکہ اس نام نہاد جمہوریت نے ہمیں کیا دیا تو سوائے اس کے کہ ہمارا سر شرمندگی سے جھک جائے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں قانون سازی ہوتی ہے۔ کیا گزشتہ اڑھائی سالوں میں ہم کوئی معمولی سی بھی قانون سازی کر سکے ہیں۔ ہمارا اصلی ہدف عوامی اصللاحات ہونا چاہئیں۔ احتساب کی غلطیوں کو دور کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن میں اعلیٰ ترین اصلاحات لائی جا سکیں۔ اٹھارہویں ترمیم میں جو کمزوریاں ہمیں نظر آ رہی ہیں، باہمی طور پر ان کا یکجا ہو کر ختم کیا جا سکے مگر افسوس صد افسوس ہم سوائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے کچھ بھی نہ کر سکے۔

ای پیپر دی نیشن