پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا ہے میرے شہر کے لوگوں نے

حقیقت یہ کہ بنیادی خصوصیات جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں اورجن کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ علم اور شعور ہیں۔ کتب بینی حصول علم اور بیداری شعور کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ صرف درسی یا نصابی کتب کے مطالعہ سے شعور بیدار نہیں ہوتا اس کے لئے دیگر نافع کتب کے مطالعہ کی عادت ضروری ہے۔کثرت مطالعہ سے حاصل کردہ یہ شعور فرد کی تربیت کرتا ہے، اخلاقیات، تہذیب و تمدن سے آشنا کرتا ہے،زندگی گزارنے کا سلیقہ دیتا ہے، مشکلات کو آسان کرنے کا ہنر سکھاتا ہے، حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اور معاشرتی رویوں میںبہتریلاتا ہے۔یوں افراد کی تعلیم و تربیت سے ہی مہذب معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ روزمرہ کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ملک عزیز میں ایک طالب علم کے مطالعہ کا بنیادی مقصد امتحان میں اعلی نمبرحاصل کرنا یا پاس ہونا ہے اس کے لیے وہ درسی کتب تک محدود رہتا ہے اور دیگر مفید کتب سے استفادہ نہیں کرپاتا۔
اگرچہ ہمارے معاشرہ میں پہلے بھی مطالعہ کا شوق زیادہ نہیں تھا اب تو کتب بینی کی عادت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ مزید ستم یہ کہ کسی کو نہ اس کا ادراک ہے اور نہ ہی ملال۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچھترفیصد لوگوں کو کتب بینی کا کوئی شوق نہیں۔مطالعہ تودور کی بات کتاب کے پاس تک نہیں جاتے۔ ایک اور سروے کے مطابق صرف نو فی صد لوگ کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ بقول شاعر…؎
پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا ہے میرے شہر کے لوگوں نے
الماری میں بند پڑے ہیں کاغذ ، قلم ، دوات
 یہی وجہ ہے کہ قوم فائدہ مند علوم اور شعورسے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا مشاہدہ روزمرہ کے معاملات زندگی سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سماجی و معاشرتی رویے چیخ چیخ کربتا رہے ہیں کہ تعلیم توبہت ہے تربیت کی کمی ہے، اخلاقیات کی کمی ہے، شعور کی کمی ہے۔اخلاقی اقدار کا جنازہ اٹھ گیا ہے، تہذیب و تمدن کا نام و نشان ختم ہونے کو ہے۔ ہمارے رویوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارا شمارمہذب قوموں کی صف میں نہیں ہوتا۔ 
معلم اعظم حضرت محمد ؐ نے جہالت کی تاریک میں ڈوبی قوم کوتعلیم و تربیت سے ہی دنیا کی بہترین قوم بنا یا تھا۔ آپؐ نے بڑی پیاری دعا’’ اے اللہ میں تجھ سے علم نافع کا سوال کرتا ہوں ‘‘ کی تلقین فرمائی۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کا عروج نفع بخش علوم کی وجہ سے ہوا اورجب اس رستے کو ترک کردیا گیاتو زوال کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔اس عروج و زوال کی تشخیص معاشرہ کے طبیب نے یوں فرمائی کہ…؎
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقرا ء سے ہوا تھا
 تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کتب خانے مسلم ممالک میں تھے۔ اب اس کا الٹ ہو گیا علم و حکمت کے یہ خزانے کہیں اورمنتقل ہوگئے، کچھ ردی میں بک گئے، کچھ دریا برد ہوگئے ،کچھ چوری ہوگئے اور کچھ تباہ و برباد ہوگئے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس دکھ کا اظہار فرمایا …؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
کتب بینی کا ایک ذریعہ عوامی لائبریریوں کا وجود ہے۔ ملک عزیز میں لائبریریوں کے حوالے سے اعداد و شمار انتہائی مایوس کن ہیں۔ راقم نے پڑھا کہ مغربی دنیا کا ایک شہرایسا بھی ہے جس کی آبادی پانچ لاکھ ہے اور وہاں کتب خانوں کی تعداد تین سو ہے۔ جبکہ لاہور جیسے گنجان آباد شہر میں صرف چند پبلک لائبریریاں ہیں اور ان میں سے کچھ تک تو عام آدمی کی رسائی بھی نا ممکن ہے۔
 کئی شہرایسے بھی ہیں جہاں لائبریری کا کوئی وجود ہی نہیں۔ایک دور تھا جب بڑے شہروں میں یونین کونسلوں کی عمارتوں میں ایک کمرہ مطالعہ کے لیے مخصوص ہوتا تھا، محلہ کی سطح پر نجی لائبریریاں موجود تھیں جہاں مناسب کرائے پرکتب مل جاتی تھیں۔ اب یہ سلسلہ مکمل ختم ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کتب خانوں کی حفاظت اور نئے کتب خانوں کا قیام کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ماضی قریب میں شاید ہی کسی شہر میں سرکاری سطح پر کسی پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہو۔ 
قوموں کی ترقی کا راز کتب بینی کے فروغ میں ہے۔ اور اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔یاد رہے کہ علم طاقت ہے،علم دولت ہے، علم روشنی ہے اورعلم نور ہے۔ کتب بینی کا شوق اصلاح معاشرہ اور ترقی کے لیے لازم ہے۔
کتب بینی کا شوق بیدارکرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے توحکومتی سطح پر اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ ماہرین نفسیات، ماہرین تعلیم ، ماہرین معاشرتی علوم سر جوڑ کر بیٹھیں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کریں اور دیانت داری سے ان پرعملدرآمد ہو تاکہ موجودہ اور آنے والی نسل میں کتب بینی کا شوق بتدریج پیدا ہوسکے۔ اخلاقی موضوعات پر مشتمل کتب کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ 
یونین کونسل کی سطح پرمناسب دارالمطالعہ کا قیام ہو جس میں کتب کے ساتھ اخبارات اورجرائد بھی رکھے جائیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کو فعال بنایا جائے۔ اساتذہ کرام رول ماڈل بنیں تاکہ طلبہ ان کی تقلید کریں۔ طالب علم کو تدریسی اوقات کے دوران کچھ وقت لائبریری میں مصروف رکھا جائے۔ کتب بینی کے حوالے سے اسائنمنٹس دی جائیں۔اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی ہے۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ کتب بینی کے بغیر ان کی نسل ذمہ دارشہری اور فرمانبردار اولاد نہیں بن سکتی۔ دیگر چیزوں کے ساتھ اچھی کتابیں تحفہ دیں۔ بچوں کے سامنے خود بھی مطالعہ کریں اوران کو پڑھ کرسنائیں اس نیت سے کے یہ بچے کی تعلیم و تربیت کا لازمی جزو ہے۔اس حوالے سے میڈیا بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
٭…٭…٭

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...