سیاسی اتار چڑھائو

اسلام آباد کی جنرل نشست پر قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کو 169‘ حفیظ شیخ کو 164 ووٹ‘ 7 ضائع‘ اپوزیشن امیدوار کو 5 ووٹ اضافی ملے۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے عمران خان اکثریت کھو چکے‘ استعفیٰ دیں۔ ادھر حکومت کا فیصلہ ہے‘ وزیراعظم قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں اور وہ ووٹ انہوں نے لے لیا اور پہلے سے زیادہ اکثریت شو کر دی۔ وزیر خزانہ کون ہوگا‘ فیصلہ وزیراعظم کرینگے۔ اپوزیشن اتحاد کی کل نشستیں 47 اپوزیشن کی 53‘ اپوزیشن کو نئی زندگی مل گئی۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں مایوسی‘ سیاسی محاذآرائی میں شدت کا اندیشہ۔ سندھ میں بھی بڑا اپ سیٹ۔ پیر صدرالدین شاہ راشدی کو شکست۔ گیلانی جیت پر جنوبی پنجاب میں جشن۔ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔ گیلانی کا چیئرمین سینٹ منتخب ہونا ان تمام اتحادی جماعتوں کیلئے بھی ضروری ہے جنہوں نے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی تھی کیونکہ اپوزیشن کو اب تک سب سے بڑا خدشہ یہی تھا کہ اگر حکومت کو سینٹ میں بھی اکثریت مل گئی تو سب سے پہلا وار اٹھارویں ترمیم پر ہی ہوگا۔ جس کا وزیراعظم عمران خان کئی بار اظہار کرچکے ہیں اور مقتدر قوتیں بھی اس کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ پنجاب میں سینٹ کی گیارہ نشستوں پر بلامقابلہ افراد منتخب ہوئے ہیں۔ سینٹ انتخابات کے بعد پی ڈی ایم کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ چیئرمین سینٹ کا انتخاب بھی ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی لائی جا سکتی ہے۔ سینٹ الیکشن نے وائرل فیور کی شکل اختیار کررکھی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کا انداز سیاست اور سیاسی سوچ آصف زرداری سے ملتی ہے اس لئے دونوں میں گہری ہم آہنگی ہے۔ گیلانی کی کامیابی سے جنوبی پنجاب کی سیاست میں بھی ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔ ناراض ارکان دوبارہ پارٹی سے رجوع کر سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 160 ووٹ ہیں لہٰذا 169 ووٹ ملنے کا مطلب ہے کہ کچھ حکومتی ووٹرز بھی نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کو ووٹ دیئے۔ حکومت کو اپوزیشن کے بارے میں اپنی سوچ اور رویے پر نظرثانی اختیار کرنا ہوگی۔ اب پہلے سے زیادہ محتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں سمیت اگر تمام سیاست دان پارلیمنٹ کو سپریم تصور کرتے ہیں تو اس کا ثبوت فراہم کرنے کا یہی سب سے اچھا وقت ہے۔ عوامی بیداری کو تبدیلی کا محرک سمجھا جائے۔ اور عوام پر بھروسہ کیا جائے۔ ہماری سیاست اس وقت شفاف ہوگی جب ووٹ کو عزت ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ ہو گئی؟ پیسے کس نے لئے‘ کس نے دیئے‘ کیا پی ڈی ایم کا بیانیہ جیت گیا یا محض آصف علی زرداری کی جیت ہوئی۔ تحریک انصاف ووٹ ضائع کرنے والے ارکان کا پتہ چلائے گی؟ سینٹ الیکشن کے حوالے سے ملک بھر میں سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اپوزیشن اس لئے خوش ہے کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت کی جانب سے اوپن بیلٹ کے حق میں فیصلہ لینے کی خواہش کو رد کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق سیکرٹ بیلٹ کے حق میں رائے دی ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام تر دستیاب اقدامات کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد وہ صدارتی آرڈی ننس خودبخود ختم ہو گیا ہے جس میں اوپن بیلٹ کا طریقہ کار نافذ کیا جانا تھا۔ سیکرٹ یا اوپن بیلٹ کی بحث اس لئے شروع ہوئی کہ ماضی میں سینٹ کے انتخابات میں ہمیشہ پیسے کے استعمال کے الزامات سامنے آتے رہے۔ بلوچستان میں ایک ووٹ کا ریٹ 70 کروڑ روپے تک پہنچ چکا۔ کراچی میں ایک امیدوار پر الزام لگا کہ اس نے 35 کروڑ میں ٹکٹ خریدا ہے۔ الیکشن سے ایک دن پہلے سندھ اسمبلی میں مار پیٹ‘ ووٹوں کی مبینہ خرید وفروخت کی دو ویڈیوز عام ہوئیں۔ سیاست مزید بے وقعت ہورہی ہے۔ ووٹ ضائع کرنا صحیح یا غلط‘ الیکشن ایکٹ خاموش ہے۔ سینٹ الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ حکومت کے حفیظ شیخ ہار گئے۔ ایوان بالا میں تحریک انصاف کی مجموعی 26 پیپلزپارٹی 21 ن لیگ 18‘ بی اے پی13‘ جے یو آئی 5‘ بی این پی مینگل 3 اور دیگر کی 14 نشستیں۔ ایک زرداری سب پر بھاری تو ثابت ہوگیا‘  اسلام آباد کے سینیٹر کے 342 نشستوں میں سے 341 پر اراکین موجود ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں مجموعی نشستیں 371 ہیں۔ تاہم اس وقت 368 اراکین موجود ہیں۔ جن میں 181 کا پی ٹی آئی سے تعلق ہے۔ ن لیگ کے 165‘ ق لیگ کے 10 اراکین ہیں۔ سندھ اسمبلی میں 168 نشستیں ہیں۔ 99 پیپلزپارٹی‘ 21 متحدہ کی‘ خیبر پی کے میں 145 نشستیں ہیں‘ 94 پی ٹی آئی کی ہیں۔ بلوچستان میں نشستوں کی تعداد 65 ہے۔ گیلانی کی فتح حکمران جماعت کیلئے بڑا اپ سیٹ ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کو شیڈو گورنمنٹ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں طرف سے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن