کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے۔۔۔۔

انسان غلطی کا پتلا ہے اگر زندگی کے کسی موڑ پر اپنی غلطیوں کا احساس کر لے تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے اور قوم بھی مگر افسوس کہ یہ کبھی ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور ہر چیز کو خرید لیتے ہیں اور بس ایک دوسرے کو بے نقاب کر کے خود بھی رسوائی سے جھولیاں بھرتے ہیں میں تو بس یہی کہوں گاکہ :
کتنے انجان ہیں آئینہ دیکھ کر 
شرم آتی نہیں ان کو کوئی مگر
پیسے کے بل بوتے پر سیاستدان بننے والے پارسائی کے دعوے کرتے ذرانہیں شرماتے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ان کرپشن کے ماسٹرز نے کس طرح ملک کو لُوٹا ہے ۔ تقریباً ہر جماعت کے Mony Making کے سیل ہیں ۔ انداز اپنا اپنا ہے یہاں پارٹیوں میں شمولیت سے لیکر پارٹی ٹکٹ انتہائی مہذب طریقے سے بکتے ہیں ۔ دولت کے زور پر شرافت کی تذلیل اور بدمعاشوں کو تاج پہنا کر پاک ملک کی پاک اسمبلیوں اور سینٹ میں بھیج کر ملکی عزت کا سودا کرتے ذرا نہیں شرماتے اس لیے کہ یہ سیاستدان نہیں سوداگر ہیں ۔
جناب وزیر اعظم صاحب! کرپشن تو ہر الیکشن میں ہوتی ہے اور ہر جماعت کے لوگ اپنی اپنی اوقات کے مطابق اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ ہاں آپ درست کہتے ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے۔ یہ چھوٹا لفظ ہے۔ جناب عالی! آپکے بقول ملک کو لوٹنے والے کرپشن کرنیوالے غدار ہیں تو ذرا غور فرمائیں کہ اس طرح کے لوگ تو ہر جماعت میں High Level پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 
جناب وزیر اعظم صاحب! Financialکرپشن سے بڑی قیامت Intellectualکرپشن ڈھاتی ہے۔ "اپنی ٹیم میں نا اہل لوگوں کو شامل کرنا بھی Intellectualکرپشن کا حصہ ہے۔" جناب یہاں پر جمہوریت نہیں ہمیشہ کنٹرولڈ جمہوریت آئی ہے جو ڈکٹیٹر شپ کی خوبصورت شکل ہے۔ اور یہی جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے۔ آپ نے بہت سے نام نہاد سیاستدانوں کی لوٹ مار ضرور بند کی ہے مگر ذرا غور فرمائیں کہ کیاآپکی اپنی جماعت میں کوئی کرپٹ اور نا اہل نہیں ہے ؟میرے خیال میں بھرمار ہے۔اگر اہل لوگ آپکے ساتھ ہوتے تو شاید آج آپکو یہ مشکل وقت نہ دیکھنا پڑتا ۔آج آپکی ٹیم کی وجہ سے کرپشن کے بادشاہوں کے بچے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو بھاگنے نہیں دینگے ۔ یہ درست ہے کہ کرپشن ختم کرنے کیلئے بطور ِمعاشرہ کردار اداکرنا ہوگا۔ قوم قربانیاں دے دے کر تھک گئی ہے اور اپنا کردار بھی ادا کر رہی ہے ۔ مہنگائی کی چکی میں پستی ہوئی قوم پر رحم فرماتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی ٹیم سے نکالیں جو بربادی ء گلستاں کر کے واپس اپنے گھونسلوں میں چلے جائینگے ۔ 
کرپٹ مافیاکو آپکا للکارنا اچھا لگتا ہے کہ میں حکومت میں رہوں یا اپوزیشن میں ، میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ۔ جناب عالیٰ! آپ نے اپوزیشن میں بھی انہیں للکارا اور اب حکومت بھی آپکی ہے ۔ بڑے باادب عرض کروں گا کہ جناب یہ آپ کیلئے اور ذمہ دارانِ چمن کیلئے آخری موقع ہے اگر آپ بطور وزیر اعظم انکے احتساب میں ناکام ہو گئے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ آج پاکستان میں ہر چیز بکتی ہے خریدار ہونا چاہیے ۔ جس ملک میں لوگ غربت سے تنگ آ کر اپنے گردوں سے لیکر اپنے بچے برائے فروخت کا بینر لگا کر اسمبلی کے سامنے آجائیں اب ان پر رحم کریں ۔ کرپٹ سیاستدان انسان بن جائیں تو مناسب ہے وگرنہ بھوک اور افلاس سے تنگ لوگ ان کاشانوں کو جلا دیں گے جن کی وجہ سے انکے آشیانے محفوظ نہ ہوں ۔قوم اب جان چکی ہے کہ سیاستدان ملک کو لوٹتے ہیں آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں اور قوم کو بیوقوف بناتے ہیں ۔  مجھے کوئی یہ بتانے کی اخلاقی جرأت کر سکتا ہے کہ فلاں فلاں شعبے میں کرپشن نہیں ہے ۔ کرپشن اوراقربا ء پروری دیمک کی طرح ملکی بنیادوں کو چاٹ گئی ہے۔ قوم کے ذہنوں میں سوال ضرور اٹھتے ہیںکہ کاش یہ بڑے بڑے لوگ کرپشن کا پیسہ پاکستان سے باہر نہ لیکر جاتے۔پاکستان بنانے والوں کی اولادیں دربدر ہیں اور جن کا پاکستان پر کچھ نہیں لگا وہ جونکوں کی طرح پاکستان کا خون چوس رہے ہیں ۔آج پاکستانی قوم یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ چیف صاحب بھی اپنے شایانِ شان ایکٹ کریں اور یہ لوگ جو ادارے کیخلاف بد زبانی کر رہے ہیں ان کیخلاف غداری کے مقدمات درج ہونے چاہئیں۔شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر اداروں کی توقیر بحال رہنی چاہیے ۔ بحیثیت پاکستانی اور پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہونے کے ناطے کبھی کبھی سوچوں میں گُم ہوتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے شہداء کے خون سے بننے والے پاکستان پر قبضے کیلئے باریاں لگائی ہوئی ہیں اور اس قوم کی تقدیر سے مذاق کرتے نہیں تھکتے ۔ ہم پاکستان سے محبت کی آگ میں بے تاب ہیں اور اپنا رول ادا کرینگے ۔ انشاء اللہ ۔ بس اس وقت ان چہروں کو دیکھ کر یہی کہہ سکتاہوں کہ :
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے 
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے 

ای پیپر دی نیشن