اپوزیشن کی جدوجہد کا اونٹ …

گیارہ سیاسی جماعتوں نے حکومت گرانے کی جو تحریک شروع کی ہے وہ نصف سفر طے کرچکی ہے۔ حسب دستور دو آراء سامنے آئی ہیں۔ حکومت کہتی ہے۔ چند مفاد پرستوں اور بدعنوان عناصر کا گروہ جو اپنی کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ بچانے کیلئے میدان عمل میں اترا ہے۔ اسکے برعکس اپوزیشن کا دعویٰ ہے غربت، بھوک اور افلاس سے ستائے ہوئے عوام انکے ساتھ ہیں۔ …جن لوگوں نے وطن عزیز کی سیاست کے اتا چڑھائو دیکھے ہیں،جانتے ہیں کہ حکومت مخالف حاضرین جلسہ کی تعداد جاننے کا ایک سیدھا سا فارمولا ہے۔ بالفرض لاکھ کا مجمع ہے تو حاضر ڈیوٹی اہلکار اسے دو سے تقسیم کردیتے ہیں۔ رپورٹ جب ڈپٹی کمشنر بہادر تک پہنچتی ہے تو وہ ایس ایس پی سے مشورے کے بعد 1/4 کردیتا ہے۔ کمشنر کی اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ دس بارہ ہزار پر اکتفا کرتا ہے۔ اس طرح ہوم ڈیپارٹمنٹ اور چیف سیکرٹری سے ہوتی ہوئی جب وزیراعظم تک پہنچتی ہے تو اس کا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ گنتی کے کچھ شرپسند شریک جلسہ تھے۔ عوام نے راندگان درگاہ کو ریجکٹ کردیا ہے۔ تمام ایجنسیوں کی رپورٹ قریب قریب ایک سی ہوتی ہے۔ اسے معتبر بنانے کیلئے یکسانیت ضروری ہے۔ ہمارے کلاس فیلو نیئر محفوظ DIG انٹیلی جنس بیورو تھے۔ کہنے لگے ’’ہم کبھی بھی منفی رپورٹنگ نہیں کرتے، حکمران جہلا جانتے ہیں، راوی ہمیشہ چین لکھتا ہے، اسکا فائدہ یہ ہے کہ جب تک حکومت قائم رہتی ہے ، ہماری رپورٹ کو سراہا جاتا ہے۔ بالفرض چل چلائو ہوجائے تو وہ ہماری جواب طلبی کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ یہ جو طریقہ کار لکھا گیا ہے اس میں کوئی رمزنہاں ہے نہ کوئی بوالعجی ! ہم نے خود بھی چالیس سال کی سروس میں یہی تیر بہدف نسخہ استعمال کیا ہے۔
اپوزیشن کا جلسہ بالفرض ناکام ہوجائے تو بھی ’’ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘‘ کی  اصطلاح ہی استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے کراچی کے مہاجر بھائی اس اصطلاح پر بڑے جزبز ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’صرف سمندر ہی رہ گیا ہے باقی تو ہر چیز اسلام آباد میں پہنچا دی گی ہے۔ پنجابیوں کی سمندر کو ہتھیانے کی خواہش نے کبھی دم نہیں توڑا! انہیں چاہئے کہ جم غفیر کا لفظ استعمال کیا کریں … خیر یہ تو ایک سخن گسترانہ بات تھی، حقیقت یہ ہے کہ متحارب فریقین کے تخمینے میں بعدا لمشرقین ہوتا ہے۔اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ایسے جلسوں سے حکومت وقت کو کیا فرق پڑتا ہے؟ 22 کروڑ کی آبادی میں اگر زرکثیر خرچ کرکے چند ہزار نفوس اکٹھے کرلئے جائیں تو کیا حکومت گر جائے گی؟ کیا عمران خان دست بستہ ہوکر استعفے مولانا صاحب کی جھولی میں ڈال دے گا؟ گڑگڑا کر ’’شما‘‘ چاہے گا۔ برصغیر کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہی نہیں! ایوب خان سے استعفیٰ حزب اختلاف نے نہیں بلکہ ہم مقتدر حلقوں نے لیا تھا۔ ایک آمر کو دوسرے آمر سے Replaceکردیا۔
This King is Dead` Long live the King 
جنرل محمود نے پستول میاں نوازشریف کی کنپٹی پر رکھ دیا پھر بھی انہوں نے انکار کردیا۔ نتیجتاً ان کی کلائی مروڑنا پڑی۔
اگر سابقہ حکومتیں دھرنوں اور لانگ مارچوں سے متزلزل نہیں ہوئیں تو موجودہ حکومت کیسے ہاتھ کھڑے کردے گی؟ عمران خان اور ڈاکٹر قادری نے بیک وقت لانگ مارچ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس تو 40/50 ہزار مریدین کا جتھہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے میاں نوازشریف کا ’’بولو رام‘‘ ہوجائے گا۔ یہ لوگ پارلیمنٹ ہائوس تک پہنچ گئے۔ وزیراعظم ہائوس تک محاوراتی ایک جست کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ نفسیاتی دبائو ڈالنے کیلئے کفن منگوائے گئے اور قبریں بھی کھود دی گئیں۔ کئی دن کے جاںگسل انتظار کے بعد جب قادری صاحب نے ’’نصرمن اللہ فتح قریب‘‘ کہ کر انہیں وزیراعظم ہائوس کی طرف دھکیلا تو دوسری طرف سے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں نے ان کا استقبال کیا۔ مریدین پیر سے جس قسم کے معجزے کی توقع کررہے تھے وہ رونما نہ ہوا۔ جب وہ تتربتر ہوکر واپس بھاگے تو ڈاکٹر صاحب پر تمام تلخ حقیقتیں روزروشن کی طرح عیاں ہوگئیں! انہوں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر واپسی کا اعلان کیا۔ اسکے بعد خان نے اپنے دھرنے کو ایوننگ میوزیکل شو میں تبدیل کردیا… مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بھی ناکام ہوا، انہیں ’’وعدہ فردا‘‘ پر ٹرخا دیا گیا۔ مولانا نے بھی پسپائی میں ہی عافیت جانی۔
یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مولانا نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ تاریخ مارچ تک بڑھا دی ۔ان تمام دشواریوں اور مشکلات کے باوصف پھر وہی پرخطر راستہ کیوں اختیار کیا جارہا ہے!… کیا یہ صریحاً حماقت ہے یا There is Methed in Madness? ان کے خیال میں یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر دفعہ ناکامی کا منہ دیکھا جائے۔ اس دفعہ حالات مختلف ہیںپر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے! حکومت نے لوگوں کو جو سبز باغ دکھائے تھے،وعدے وعید کئے تھے، سنہری مستقبل کے خوابوں کے جو جال بنے تھے سب بکھرتے اور ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جب آبادی کی بڑی تعداد خط غربت سے نیچے چلی گئی ہو، مفلسی کے تحت الثریٰ میں دھنستی جارہی ہو، بھوک بھنگڑا ڈال رہی ہو،خودکشیاں نجات کا واحد ذریعہ سبھی جانے لگی ہوں تو لوگ اس آواز پر ضرور کان دھریں گے جو حکمرانوں کیخلاف اٹھے گی! جوق در جوق، قریہ قریہ،بستی بستی چینٹیوں کی طرح لوگ نجات کا ’’صور اسرافیل‘‘ سن کر باہر نکلیں گے۔ کارواں بڑھتا جائے گا، نعروں کی دھمک سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی اور اسلام آباد کے حکمرانوں کیلئے جان چھڑانی مشکل ہوجائے گی۔ اپوزیشن لمبے دھرنے کے مضمرات سے آگاہ ہے اس لئے Blitzkrieg ہوگا جسے پنجابی میں ’’ڈھائی پٹ‘‘ کہتے ہیں۔ شہر کو جانے والے سب راستے بند کردیئے جائیں گے اگر مولانا رضوی مرحوم اڑھائی ہزار آدمیوں سے حکومت کو پریشان کرسکتا تھا تو یہ لاکھوں کو کیسے سنبھالیں گے؟…
اس مرتبہ ایک اور حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ وہ وہی پر تمام اہم شاہراہیں بند کردیں گے۔ کراچی پورٹ سے نہ تو سامان اوپر جاسکے گا اور نہ برآمد ہوگی۔ نتیجتاً کرونا زدہ معیشت کو کاری ضرب لگے گی۔ استعفوں کا آپشن ایک Strategic Move ہے۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے حیدرآباد جیل میں بھوک ہڑتال اس وقت کی تھی جب انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ایوب خان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اسی طرح استعفوں کو بطور ’’تابوت میں آخری کیل‘‘ کے استعمال کیا جائے گا۔اب رہ گیا ہم مقتدر اداروں کا رول! جو بہرحال حتمی ہوگا۔ انہیں چونکہ ملکی مفاد عزیز ہے اس لئے یہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالیں گے۔ کیا یہ حکمت عملی کامیاب ہوگی؟ کیا یہ محض دیوانے کا خواب ہے، مجذوب کی بڑھ سے اس کا پتہ تو آنے والا کل دے گا… البتہ ایک بات یقینی ہے ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ عوام اپنے آپ کو مصائب کے کوہ گراں اور مسائل کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے درمیان گھرا ہوا پائیں گے!

ای پیپر دی نیشن