امن دشمنوں کے خلاف کارروائیاں!!!!

ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ہنگامہ برپا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کہیں دروازے کھلے ہیں، کہیں بند ہیں، کہیں نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھلے ہیں تو کہیں دماغ بند ہیں، نوٹ دیکھنے کے بعد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جاتی رہتی ہے، کہیں وعدے ہو رہے ہیں تو کہیں وعدے توڑے جا رہے ہیں، کہیں نئے دوست بن رہے ہیں تو کہیں برسوں کی دوستیوں کو قربان کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ایسا وقت ہے کہ سب ادھر اْدھر بھاگ رہے ہیں کوئی کسی ایک جگہ بیٹھنا نہیں چاہتا، بیٹھنے والے کو خوف ہے کہ کہیں ٹرین نہ نکل جائے، جو کھڑے ہیں انہیں خوف ہے کہ پچھلی صفوں میں نہ چلے جائیں۔ بس جس کا جہاں اور جیسے بس چل رہا ہے کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اس کارروائی میں سب بھول چکے ہیں کہ پاکستان کے دشمن ہر وقت موقع تلاش کرتے رہتے ہیں، پاک دھرتی کو نقصان پہنچانے کے لیے راستے بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی کھلاڑی سیاسی میدان میں بہت مصروف اور یہ بھول چکے ہیں کہ خطے کے حالات کیا ہیں، پاکستان کی ضرورت کیا ہے، پاکستان آگے کیسے بڑھے گا۔ پاکستان کو محفوظ کیسے بنانا ہے۔ سب حکومت چاہتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی کسی دوسرے کی حکومت چاہتا ہو سب چاہتے ہیں بس وہ حکومت میں آئیں، جیسے مرضی آئیں۔ بہرحال اس سیاسی کھیل میں دفاعی کام بھی جاری ہے۔ جب سیاست دان سب کچھ بھلا کر جوڑ توڑ میں مصروف ہیں دفاعی ادارے ملکی دفاع یقینی بنانے اور ملک کے چپے چپے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ قوم کے ہیروز ہیں۔ حقیقی معنوں میں جب ہر طرف اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ ملک کے محافظوں کی ملک دشمنوں کے ساتھ جنگ جاری ہے۔ سلام ہے ان جوانوں کو جو ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کے دانت کھٹے کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست دان ہر مشکل وقت میں اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے دفاعی اداروں پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ جب وطن کی خدمت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے سارے ایک ہی سمت یعنی حصول اقتدار میں مصروف ہیں اس وقت بھی فوجی جوان ملک دشمنوں کو جہنم واصل کرنے میں مصروف ہیں۔
 آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے گذشتہ روز بلوچستان کے شہر تربت کے علاقے گور چوپ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا۔ سکیورٹی فورسز کے اس آپریشن میں دہشت گردوں کے دو کمانڈرز سمیت سات دہشت گرد مارے گئے۔ہلاک ہونے والے دہشت گرد مکران ڈویژن میں حالیہ فائرنگ اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ آپریشن دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کیا گیا۔ شدید فائرنگ کا تبادلہ ہونے والے اس آپریشن میں کمانڈر حاصل ڈوڈا اور واشدل سمیت سات دہشت گرد مارے گئے۔ دہشت گردوں نے فرار ہونے کی کوشش میں سکیورٹی فورسز پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ ہلاک دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود کا اہم ذخیرہ بھی برآمد کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق  دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ کسی کو بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی سبوتاڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 
دیکھیے دشمن کیسے ہم پر حملہ آور ہے اور ہم اپنے ہی لوگوں پر حملے کر رہے ہیں ایک دوسرے پر گولے برسا رہے ہیں۔ کیا ملک میں کسی نے اس واقعے پر بات کی، ردعمل دیا یا دہشت گردی کی مذمت کی بالکل نہیں سب اپنے اپنے کھیل میں مصروف ہیں اور جب خود مظلوم ثابت کرنا ہو گا سب سے پہلے بیانات جاری کرتے ہیں فوج کو نشانہ بناتے ہیں، دشمن کو موقع فراہم کرتے ہیں لیکن جب وہ گولیاں کھا رہے ہوتے ہیں اس وقت کسی کو ہوش نہیں ہوتی۔ 
دوسری طرف سبی کے علاقے جیل روڈ پر ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جب کہ زخمی ہونے والے متعدد افراد جو سول ہسپتال سبی منتقل کردیا گیا۔ خودکش بمبار نے باب حبیب چوک کے قریب خود کو دھماکے سے اڑایا۔ خودکش بمبار کے اعضا قبضے میں لے کر دھماکے کی جگہ کو سِیل کر دیا گیا ہے۔ جاں بحق اور زخمیوں میں زیادہ تر ایف سی اور پولیس اہل کار شامل ہیں۔ خود کش دھماکے میں شہید ہونے والوں میں حوالدار لطیف، نائیک وحید،سپاہی جلیل،سپاہی آفتاب اورسپاہی حبیب اللہ شامل ہیں۔ دھماکے میں چھ ایف سی اہلکار، دس پولیس  اہلکار اور تین شہری بھی زخمی ہوئے۔
یہ ایک ہی دن میں ہونے والے دو واقعات ہیں یہ واقعات کسی بھی حکومت کے ساتھ نہیں جوڑے جا سکتے، کوئی بھی حکومت ہو دشمن ہر وقت اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ ہر وقت ذاتی مفادات کے حصول کی حکمت ترتیب دیتا رہتا ہے۔ ان دنوں بھی سب خطے کی صورتحال اور پاکستان کی مشکلات کو نظر انداز کر کے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ سیاست ضرور کریں لیکن قومی سلامتی اور ملکی مفادات کو کسی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ سیاست کر رہے ہیں تو اسکی بنیاد امن اور سرحدوں کی حفاظت ہے اگر سرحدیں محفوظ نہ ہوں اندرونی طور پر امن نہ ہو تو کوئی سیاسی سرگرمی باقی نہیں رہتی۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان کبھی تو سیاسی سنجیدگی اور پختہ سوچ کا مظاہرہ کریں کبھی تو ذاتی مفادات سے باہر نکل کر سوچیں، دہائیاں گذر گئیں، بچے جوان ہو گئے لیکن ہمارا طرز سیاست ستر کی دہائی والا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل حالات ہیں۔

ای پیپر دی نیشن