وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع،86ارکان کے دستخط

Mar 09, 2022

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی‘ نامہ نگار‘ خبر نگار) اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی ہے۔ اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کرا دی ہے۔ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے لیے اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ ہائوس پہنچے۔ رہنماؤں میں مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق، سعد رفیق، مریم اورنگزیب، رانا ثناء اللہ، پیپلز پارٹی کی جانب سے شازیہ مری، نوید قمر جبکہ جے یو آئی کی جانب سے شاہدہ اختر علی اور عالیہ کامران شامل تھے۔ تحریک عدم اعتماد ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی محمد مشتاق کے پاس جمع کرائی گئی ہے جس پر 86ارکان کے دستخط موجود ہیں جن میں ن لیگ، پی پی اور اے این پی کے ارکان شامل ہیں۔ 140 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط کے ساتھ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے۔ جس وقت اپوزیشن رہنما تحریک عدم اعتماد جمع کرانے پہنچے تھے اس وقت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنے چیمبر میں موجود نہیں تھے اور ذرائع کے مطابق اسد قیصر اس وقت چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے چیمبر میں موجود تھے۔ اپوزیشن ارکان اسد قیصر کا انتظار کرتے رہے انتظار کے باوجود سپیکر کے نہ آنے پر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی کو جمع کرائی۔ ریکوزیشن جمع کرانے کے بعد وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری اجلاس طلب کرنے کی درخواست کے 3سے 7دن بعد ہوتی ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن)کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سپیکر کی غیر موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن رہنما قومی اسمبلی سیکرٹریٹ پہنچے اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ ہم نے ریکوزیشن جمع کرا دی ہے، اب سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ 3روز کے اندر اجلاس بلا کر اس پر ارکان کی رائے لیں اور بحث کا آغاز کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے، اب بہت جلد اس وزیر اعظم سے چھٹکارا ملے گا۔ نوید قمر کا کہنا تھا کہ اسد قیصر کے علم میں تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد جمع کرانا چاہتی ہے اس کے باوجود وہ اپنے دفتر میں موجود نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ وزیراعظم کو جمہوری طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے عہدے سے ہٹانا چاہیے اور آج اس مقصد کے لیے ہم نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک جمع کرانا اپوزیشن کا قانونی حق ہے، اگر تحریک قواعد، قانون، آئین کے مطابق جمع کرائی گئی ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سے متعلق سوال کے جواب میں اسد قیصر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، بعض اوقات اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، اختلافات جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔  معاملات جلد واضح ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) سے بھی  رابطے میں ہے اور ہمارے اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پنجاب میں حکومت میں ممکنہ تبدیلی یا ناراض رہنما جہانگیر ترین کی قیادت میں منحرف افراد کے گروپ سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ا پوزیشن کے تین بڑوں نے کہا ہے   کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔ 172سے زائد ووٹ ملیں گے، عوام کے حقوق پر ڈالا گیا، اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دیا، کوئی اکیلی جماعت ملک کو مشکل سے نہیں نکال سکتی، ہمیں مل کر کام کرنا پڑے  گا، سب بالغ ہیں، صرف ایک نابالغ ہے جس کو نکال باہر کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان صدر ن لیگ میاں شہباز شریف، جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر یوسف رضا گیلانی، خوجہ آصف، عبدالغفور حیدری، مریم اورنگزیب، شازیہ مری اور دوسرے رہنما موجود تھے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی  اور جے یو آئی کے درمیان مشاورت ہوئی تھی اور اس میںفیصلہ کیا گیا تھا کہ  تحریک عدم اعتماد کو منگل کو جمع کرایا جائے گا، اس فیصلہ کو خفیہ رکھا گیا تھا، سب دوستوں نے اس کی پاسداری کی ، اجلاس کی ریکوزیشن اور تحریک عدم اعتماد پر سب  پارٹیوں نے دستخط کئے  اور اس کو جمع کرایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گذشتہ پونے چار سال میں سلیکٹڈ وزیر اعظم  نے جو کچھ اس ملک کے ساتھ معاشی اور سماجی لحاظ  سے  کیا ہے  اس کی 74سال کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے، بے روزگاری بڑھ چکی ہے، قرضے لے کر ملک کے 22کروڑ عوام کو گروی رکھ دیا گیا ہے، ملک کے اندر کسی صوبے میں کوئی نئی اینٹ نہیں لگی بلکہ ماضی کی حکومتوں نے جو تختیاں لگائی تھیں ان پر نئی تختیاں لگائی جا رہی ہیں، خارجہ محاذ  بدترین  ناکامی ہے۔ پاکستان کے وہ دوست جنہوں نے اچھے اور برے وقتوں میں پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا، انہوں نے ان کو ناراض کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے چین کے حوالے سے سی پیک کو  نشانہ بنایا گیا، حکومت میں آنے سے قبل عمران خان اور ان کے موجودہ وزراء نے کیڑے نکالے، کرپشن کی باتیں کیں، چین پر بے بنیاد الزامات لگائے اور تنقید کی، چین جیسے دوست کو ناراض کرنا کہاں کی خارجہ پالیسی تھی۔ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ہے جبکہ میلسی میں تقریر کے دوران سلیکٹڈ وزیر اعظم نے انتہا کردی اور بیٹھے بٹھائے ہمارے یورپی یونین اور دوسرے ممالک کو ناراض کردیا، سب کو پتہ ہے کہ پاکستان یورپ اور شمالی امریکا میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور آپ نے بیٹھے بٹھائے کارتوس چلا دیے، انہوں نے جو زبان استعمال کی وہ انہیں زیب نہیں دیتی۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کی خواہش پر کیا جو اس حکومت کے خلاف دست بدعا ہے۔ لہٰذا اس کو غیرملکی سازش قرار دینا احمقانہ بات اور بے بنیاد الزام ہے۔ انہوں نے حکومتی بیانیے کے جواب میں سوال کیا کہ کیا یہ مہنگائی غیرملکی سازش سے ہوئی، کیا بیروزگاری، مہنگی گیس خریدنا، قرض لے لے کر ملک کا بیڑا غرق کرنا، مہنگی ترین بجلی پیدا کرنا اور پوری اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دینا بین الاقوامی سازش اور خارجہ پالیسی ہے؟۔ ہم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کی خواہشات اور دعاؤں کا عکاس ہے۔ آج ہماری تحریک عدم اعتماد سپیکر کے دفتر میں جمع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ  اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دیا، ان کے ایل این جی،گندم سکینڈل، مالم جبہ اور دوسرے سکینڈل ہوئے، اپوزیشن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔  بزرگوں، بیٹیوں اور بہنوں کو جیلوں میں ڈالا، ان کا احتساب  بدترین انتقام تھا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کو عزت دی جا رہی ہے اور کام کو بھی عزت مل رہی ہے۔ نئی حکومت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیز کا اجتماعی فیصلہ ہو گا۔ ہر پارٹی کو رائے دینے کا حق ہے، مذاکرات سے متفقہ فیصلہ ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں اس حکومت سے کوئی خوش فہمی نہیں تھی، جب سے انہوں نے این جی اوز کے ذریعے سے مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی تو ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستانی نہیں‘ یہ کسی بیرونی ایجنڈے کا ایجنٹ ہے۔ ہم نے 2018 انتخابات کے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک متفقہ مؤقف تیار کر لیا تھا کہ الیکشن ناجائز ہوا ہے، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے اور ہم اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے بعد تحریک کا اغاز ہوا۔ ہم نے اپنی ریلیوں اور مارچ سے ان سلیکٹڈ حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا ہے، ہم قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں، ہم نے جو کہا تھا وہ ایک ایک بات حقیقت بن کر عام آدمی کے سامنے موجود ہے اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک انحطاط کی طرف گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جب 17-2018 کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا تو جو شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور اگلے سال سالانہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے چھ فیصد لگایا گیا تھا لیکن یہ حکومت ہماری سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے لے آئی، ملک کی معیشت کمزور ہو گئی اور معیشت کمزور ہونے کے بعد اب کوئی ملک آپ کو پیسہ دے کر ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آج اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں، ان کی بساط لپٹ چکی ہے اور اب کوئی آئیڈیل باتیں ان کے لیے سودمند نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اپوزیشن ملک کے مفاد پر متحد ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت چین کے ساتھ رابطے میں رہی اور سی پیک کی طرف بڑھ رہی تھی، مسلم لیگ کی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ پیپلز پارٹی نے غلط کیا بلکہ اسے  فروغ دیا اور ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھی اور چین جیسے ملک کے ذریعے دنیا سے تجارت کا شاہراہ دیا، ہم نے اتنے بڑے دوست کو مایوس کردیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں، کسی  ادارے سے بھی کوئی دشمنی نہیں لیکن ان کے فیصلوں اور رویوں سے اختلاف کا جب بھی موقع آیا ہے تو اس کو چھپایا بھی نہیں ہے، برملا اور بصد احترام اختلاف رائے کیا ہے۔ ہم کامیابی پر یقین رکھتے ہیں اور تحریک عدم اعتماد ان نااہلوں اور نالائقوں کے خلاف کامیاب ہو گی اور قوم عنقریب نجات کی خوشخبری سنے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریکوں میں  نقصان ہوا تھا، اب ہم نے کیس پیش کر دیا ہے اور ہم کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ  اداروں میں تدریجی اصلاحات کے ذریعے مستحکم جمہوریت تک پہنچنا چاہئے، کسی سے انتقام یا دشمنی کا رویہ نہیں ہونا چاہئے، ہم اصلاحات کی سوچ رکھتے ہیں، تمام ادارے آئین کے متعین دائرے میں رہیں تو شکایات پیدا نہ ہوں۔ انہوں نے تحریک کی کامیابی کے بعد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جس طرح عدم اعتماد کی منزل پر پہنچے ہیں، اسی طرح اس معاملہ کو بھی خفیہ دستاویز سمجھ لیں اس کو پبلک کر دیں تو نقصان ہو سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ طے ہو چکے ہوں یا طے ہونے کے قریب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے اپنے گذشتہ دھرنے کے اہداف حاصل کر لئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں نے 18 ویں ترمیم میں پیش آنے والے ایشوز کو حل کر لیا تھا، سب بالغ ہیں، صرف ایک نابالغ ہے جس کو نکال باہر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم بنا تھا تو اس میں استعفوں اور تحریک عدم اعتماد دونوں کا ذکر تھا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہم اپوزیشن کے دوستوں نے سوچا کہ اب نہیں تو کبھی نہیں کیونکہ یہ سلسلہ چلتا جا رہا ہے اور یہ اتنا خراب ہو جائے گا کہ اس کو کوئی بنا بھی نہیں سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم سب مل کر بیٹھے، مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی اکیلی جماعت پاکستان کو اس مشکل سے نہیں نکال سکتی، ہمیں مل کر ساتھ کام کرنا پڑے گا اور ان دوستوں کو بھی دعوت دیں گے جو ہم سے دور ہیں، ہم سب مل کر پاکستان کو اس مشکل سے آزادی دلائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ہم 172ارکان کو ایوان میں لائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے 172 سے زائد ووٹ لیں گے، صرف ہم نہیں بلکہ کئی دوست بیزار ہیں، اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اپنی پارٹی اور ان کے اپنے دوست بیزار ہیں، ان کو اپنے حلقوں میں جانا ہے تو وہ کیا جواب دیں گے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جس طرح 1989 میں غلام اسحٰق خان اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، وہ الگ بات کہ غلام اسحٰق خان نے اسمبلی تحلیل کردی تھی تاہم اب اس صدر کے پاس میں نے وہ طاقت ہی نہیں چھوڑی ہے کہ وہ کوئی اسمبلی تحلیل کر سکے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے ارکان کی پارلیمان میں حاضری یقینی بنانے کیلئے انہیں گروپس میں تقسیم کر کے ہر گروپ کا کوآرڈینیٹر مقرر کر دیا۔ ہر گروپ کا واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیدیا گیا۔ گروپ لیڈر ارکان کی ایوان میں حاضری یقینی بنانے کا ذمہ دار ہو گا۔ اگر کسی رکن اسمبلی کی گرفتاری کا امکان ہو تو وہ فوری طور پر گروپ لیڈر کو بتائے گا۔ ایسے ارکان کو جے یو آئی کے انصار الاسلام کا حفاظتی دستہ فراہم کر دیا جائے گا۔ ن لیگ کے ارکان کو پارلیمنٹ لاجز میں اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چودھری شجاعت سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے بھی ان کی رہائش گاہ پر ملے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں چودھری شجاعت حسین سے ملاقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 
عدم اعتماد

مزیدخبریں