تجزیہ: محمد اکرم چودھری
کیا جہانگیر ترین، چودھری محمد سرور اور عبدالعلیم خان کے بغیر پاکستان تحریک انصاف مکمل ہو سکتی ہے، کیا ان تینوں کے بغیر پی ٹی آئی آگے بڑھ سکتی ہے، کیا ان تین مخلص، وفادار اور مقصد کے ساتھ جڑے رہنے والے سیاستدانوں کو نظر انداز کر کے وزیراعظم عمران خان تن تنہا سیاسی بحرانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ ان تینوں افراد نے پی ٹی آئی کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے کسی عہدے کے لالچ میں نہیں بلکہ عمران خان کے دو نہیں ایک پاکستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے کام کیا۔ عمران خان کو ایوان وزیراعظم تک پہنچانے اور ملک میں تیسری سیاسی جماعت کو مضبوط قوت بنانے کے لیے پیسہ خرچ کیا۔ اپوزیشن میں تھے تو مشکلات کا مقابلہ کیا اپنی حکومت آئی تو مقدمے بھگتے لیکن ساتھ نہیں چھوڑا۔ گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں، ناراض دوستوں، ساتھیوں کو ناراض چھوڑ دینا کامیابی نہیں ناکامی ہے۔ جب آپ اتحادیوں کے گھر جا سکتے ہیں، انہیں فون کر سکتے ہیں تو اپنے گھر کے لوگوں کو گھر کیوں نہیں بلا سکتے یا ان کے گھر کیوں نہیں جا سکتے۔ ذاتی انا کے خول سے باہر نکلیں اور اپنے مخلص ساتھیوں کو منائیں۔ ملک کو باصلاحیت اور بے لوث لوگوں کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کچھ لوگوں کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے تو پھر اپنے لوگوں کی بات سننے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے علیم خان کی ملاقات کا قوی امکان ہے اور یہ ملاقات معنی خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت اور بالخصوص پاکستان میں اس طرز حکومت میں آپ کو سب لوگ صاف شفاف نہیں مل سکتے۔ ان میں موجود بہتر لوگوں سے کام لے کر ہی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جتنا وقت اتحادیوں پر لگا رہے ہیں اس کا ایک حصہ بھی اپنے لوگوں پر لگائیں تو حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے عبدالعلیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا مسئلہ نہیں دراصل وہ مزید سیاسی الجھنوں سے بچنے کے لیے عثمان بزدار کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک اس فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔