مونال ڈی سیل: عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا غیر دستخط شدہ حکمنامہ معطل کر دیا 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ ڈی سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا غیر دستخط شدہ مختصر حکم نامہ معطل کر دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ مونال  کے وکیل نے مئوقف اپنایا کہ ہائیکورٹ کے مختصر حکم کی تصدیق شدہ کاپی دستیاب ہے نہ تفصیلی فیصلہ موجود ہے۔ انٹراکورٹ اپیل بھی دو مرتبہ مقرر ہوئی لیکن سماعت سے قبل ہی کیس منسوخ ہو گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ تحریری عدالتی حکم سے پہلے ہی ریسٹورنٹ سیل کیسے کیا گیا؟ وائلڈ لائف بورڈ تو فریق ہی نہیں تھا پھر سیل کرنے میں پھرتی کیوں دکھائی؟۔ مارگلہ ہلز پر آج تک کتنے ریسٹورنٹ سیل کیے گئے ہیں؟۔ جس پر وائلڈ لائف بورڈ کے وکیل نے کہا گلوریا جینز اور لامونتانا سمیت دیگر ریسٹورنٹس کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔ سماعت چئیرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا احمد کی سرزنش بھی ہوئی، رعنا احمد کو بار بار مداخلت پر روسٹرم سے ہٹا دیا گیا۔ روسٹرم سے ہٹنے کے باوجود بات جاری رکھنے پر ججز نے رعنا احمد کو جھاڑ پلا دی گئی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا آپ سے کہا تھا تشریف رکھیں آپکو بات سمجھ نہیں آتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اصولی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا زبانی حکم کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ کیا یہ بادشاہت ہے کہ شہنشاہ نے فرمان جاری کیا اور دستخط سے پہلے ہی عمل ہوگیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا باقی ریسٹورنٹس کو نوٹس دیے تو مونال کو کیوں نہیں؟ لگتا ہے الگ سے مونال کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس چاہیں گے تو متعلقہ فورم پر نوٹس چیلنج کر دیں گے۔ مونال کیلئے بھی قانون پر ایسے ہی عمل ہوتا تو مسئلہ نہیں تھا۔ جس پر سی ڈی اے کے وکیل نے کہا مونال کی لیز چھ ماہ پہلے ختم ہو چکی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سی ڈی اے اور مونال کے تنازعہ کا فیصلہ متعلقہ سول کورٹ ہی کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...