مانیٹری پالیسی : شرح سود 9.75فیسد بر قرار ، مہنگائی کم ہو گی

کراچی (کامرس رپورٹر) بینک دولت پاکستان نے نئی زری پالیسی میں شرح سود 9.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک دولت پاکستان نے کہا ہے کہ روس یوکرین تنازع نے اجناس کی عالمی قیمتوں اور عالمی مالی حالات کے منظرنامے کو بہت غیریقینی بنادیا ہے، اگر عالمی سطح پر منفی حالات برقرار رہے تو جاری کھاتے کے خسارے اور مہنگائی کی توقعات کے منظرنامے کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے پالیسی ریٹ میں تبدیلی کا خدشہ ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پچھلے ہفتے حکومت کے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کے تحت ایندھن کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے بعد مہنگائی کا منظرنامہ بہتر ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے کہ نمو مسلسل معتدل ہوکر پائیدار رفتار اختیار کررہی ہے۔ اس اعتدال سے روس یوکرین بحران کے باعث تیل اور غذائی اشیاء کی آئندہ کی راہ کے بارے میں خاصی غیریقینی کیفیت کے باوجود مہنگائی پر طلبی دباؤ کو روکنے اور نان آئل درآمدات کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی۔ مرکزی بینک کے مطابق 24 جنوری 2022ء کو ایم پی سی کے پچھلے اجلاس کے بعد سے عمومی مہنگائی فروری میں معتدل ہوکر 12.2 فیصد (سال بسال) ہوگئی۔ اگر کچھ تلف پذیر اشیاء میں غیرمعمولی اضافہ نہ ہوتا تو فروری میں مہنگائی نمایاں طور پر کم ہوتی۔ چنانچہ مہنگائی بھی شہری علاقوں میں کم ہوگئی۔  بیرونی محاذ پر عالمی قیمتوں میں اضافے کے باوجود فروری کے تجارتی خسارے میں مزید 10 فیصد کی کمی (ماہ بماہ) ہوئی جبکہ جنوری میں پہلے ہی 29 فیصد کمی ہوچکی تھی۔ اگرچہ جنوری میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ گیا تاہم اس سے زیادہ تر تیل، ویکسین اور قرضوں اور سپلائر کریڈٹ سے لی جانے والی دیگر اشیاء کی یکمشت درآمدات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان درآمدات کو منہا کردیا جائے تو خسارہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ کم ہوتا جس سے پتہ چلتا ہے کہ جاری کھاتے کے توازن کا مضمر رجحان بھی معتدل ہورہا ہے۔ کپاس اور گندم کی پیداوار پچھلے تخمینوں سے کم ہونے کا امکان ہے۔ مالی سال 22ء  میں نمو اب بھی 4-5فیصد کی سابقہ پیش گوئی کی حدود کے وسط کے آس پاس متوقع ہے۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں درآمدات  بشمول توانائی کی درآمدات میں تیز اور وسیع البنیاد کمی ہوئی اور وہ گھٹ کر 6.1 ارب ڈالر رہ گئیں جبکہ دسمبر میں 7.6 ارب ڈالر تھیں۔  فروری میں درآمدات میں مزید کمی آئی جبکہ برآمدات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں گذشتہ نومبر کے مقابلے میں 38 فیصد کمی ہوئی۔ اس سال درآمدات میں ہونے والا تقریباً تین چوتھائی اضافہ زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ہوا، جبکہ جنوری میں حجم کی نمو منفی تھی۔ یہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ جاری کھاتے پر طلبی دباؤ کم ہو رہا ہے۔ اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تاہم  اس میں تیل اور ویکسین سمیت قرضوں اور سپلائر کریڈٹ کے ذریعے پوری کی جانے والی درآمدات کا کافی حصہ شامل ہے۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں جولائی تا فروری مالی سال 22ء  کے دوران 30 فیصد (سال بسال ) اضافہ ہوا، جس کی جزوی وجہ گذشتہ سال کے مقابلے میں پست شرح مبادلہ اور بلند درآمدات، نیز ٹیکس وصولی کی زیادہ مضبوط کوششیں ہیں۔  دوسری جانب معینہ سرمایہ کاری اور مکانات اور تعمیرات کے لیے قرضوں کی طلب میں اضافہ ہوتا رہا۔ زری حالات حقیقی لحاظ سے بدستور سخت ہیں اور نجی شعبے کے قرضوں کی نمو منفی کی حدود میں ہے۔ عمومی مہنگائی جنوری میں 13 فیصد (سال بسال) سے گر کر فروری میں 12.2 فیصد پر آگئی، جس کی وجہ توانائی کی قیمتوں میں کمی ہے۔ مہنگائی میں غذائی اشیاء کی قیمتوں کا حصہ بڑھ گیا، جو ٹماٹر، تازہ سبزیوں، چکن اور نباتی گھی کی بلند قیمتوں کی عکاسی کرتا ہے۔   اس مالی سال میں مہنگائی  اوسطاً 9-11فیصد کے درمیان رہے گی اور پھر اجناس کی عالمی قیمتوں کے معمول کے آنے پر مالی سال 23ء میں گھٹ کر  5-7 فیصد کی وسط مدتی حدود میں آجائے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن