چودھری اسد اﷲ خان
شیرگوشت کھانے والا جانور ہے۔ یہ صرف گوشت کھاتا ہے۔ دوسرے چرندوں کی طرح گھاس‘چارہ یا سبزہ نہیں کھاتا۔ شیرکو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ بیسیویں صدی 1964ء کا سال تھا۔ ایک روز بہاولپور شہرکے چڑیا گھر سے شیرکسی طرح باہر نکل آیا۔ شیرکے باہر آنے کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ شیرکی دہشت اور خوف و ہراس سے سب لوگ دبک کر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔اور دروازے اندر سے بند کر لئے۔ یہ خبر گورنر آف بہاولپور سر محمد صادق عباسی کو شاہی محل میں بھی پہنچ گئی۔ تو نواب صاحب فوراً اپنی کار میں سوار ہوئے اور شیرکے تعاقب میں دریائے ستلج کی طرف روانہ ہوگئے۔ تھوڑی ہی دورگئے تو دیکھا کہ شیر ایک سڑک پر دریائے ستلج کی طرف جا رہا ہے۔ نواب صاحب کار چلاتے ہوئے شیرکے قریب پہنچے تو شیر نے کارکی آواز سن کر پیچھے مڑکر دیکھا۔ شیر دل نواب صاحب نے شیر کی طرف دیکھا۔ پھر توکل بخدا نواب صاحب کار سے باہر نکلے اور پیدل شیرکی طرف بڑھنے لگے۔ شیرکے بالکل قریب جا کر شیر سے اپنی سرائیکی زبان میں مخاط ہوئے ’’ترجمہ تجھے شرم نہیں آئی کہ اپنے مالک سے اجازت لئے بغیر چوروں کی طرح بھاگ رہے ہو‘‘ شیرکی نظر نواب صاحب پر پڑی تو فوراً اپنے مالک کو پہچان لیا۔ شرمندہ ہوا۔ وہیں رک گیا اور نواب صاحب اس کے بالکل قریب پہنچے تو شیر نے اپنا سر نواب صاحب کے قدموں پر رکھ دیا۔ یوں اپنے جرم کی معافی مانگ لی۔ نواب صاحب نے شیرکوکان سے پکڑا اور واپس لاکر چڑیاگھرمیں بند کر دیا۔ لوگوں کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو سب اپنی جانوں کی حفاظت اور نواب صاحب کی قدرتی حفاظت پر بہت خوش اور حیران ہوئے۔ پیارے بچو آپ کو اس واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جانور بھی اپنے مالک کو پہچانتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم سب انسانوں کا مالک بھی صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے اﷲ تعالیٰ کو پہچانیں۔ صرف اسی کی عبادت کریں۔ صرف اسی کا حکم مانیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیپشن
وجاہت علی پلے گروپ،لاہور
سید ارحم نے چھٹی کلاس میں اور سیدہ عمائمہ عمران نے کلاس ٹو میں پہلی پوزیشن حاصل کی،لاہور
علی حسن ،ملتان
مومنہ ملک، ملتان
رباب فاطمہ،اسلام آباد
عائشہ صدیقہ،اسلام آباد
حمید الرحمن،اسلام آباد
فاطمہ فاروق،ہادیہ فاروق،بشری فاروق