پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین سال سے زائد کا دورانیہ مکمل کر چکی ہے ۔نوجوانوں کو ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا بڑا اعلان کیا تھا ، حکومت پنجاب کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں دی گئی ملازمتوں میںمیرٹ کی یکسر دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں ۔محکمہ تعلیم سکولز میں درجہ چہارم کے ملازمین کی خالی ہونے والی آسامیوں پر گزشتہ سے پیوستہ برس اشتہار دے کر بھرتیاں کی گئی۔ محکمہ تعلیم کے بعض افسران یہ تقرریاں کر ہی نہ سکے کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلعی ایڈمنسٹریٹر یعنی ڈی سی کی خواہشات کے مطابق تقرری آرڈر دیتے تو انھیںایک دن جیل بھی جانا پڑتا۔
ملتان میں کی گئی تقرریوںکا مختصر احوال پیش کرتا ہوں کہ اس وقت کے سی ای او تعلیم ملتان نے مقررہ تاریخ کے مطابق درخواستیں لیکر ارکان اسمبلی کی سفارشات پر احکامات تقرری سنگل حیثیت میں جاری کرنا شروع کر د ئیے۔ تقرری آرڈر ہونے کے بعد ارکان اسمبلی کی فرمائشیں بڑھتی گئیں اور کیے گئے تقرری آرڈر منسوخ کر کے ایسے امیدواروں کی تقرری کے آرڈر جاری کیے گئے جنھوں نے درخواستیں نہ دی تھیں ایک ایک آسامی پر تین تین افراد کے تقرری کے آرڈر بھی کیے اور سربراہان سکولز کو حاضر کرنے سے روک دیا گیا مگر کچھ سر براہان سکولز پہلے تقر ر نامہ لیکر جانے والوں کو حاضر کر چکے تھے ان خبروں کی اشاعت قومی اخبارات میں ہوئیں ۔سی ای او تعلیم صرف ڈپٹی کمشنر ملتان اور کمشنر ملتان نے علی الترتیب چھ اور آٹھ افراد کے نام دیکر تقر ر نامے مانگے۔ سی ای او تعلیم نے انکار نہ کیا اور ہاں کر دی مگر اس سے قبل وہ ارکان اسمبلی کے دباؤ میں آکر تقرری آرڈر میں ردو بدل کر چکا تھا۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ملتان کو تقررنامے دینے میں جب ناکام ہوا تو سی ای او تعلیم ملتان پر ایک درجن الزامات عائد کر کے ڈی سی ملتان نے کمشنر کے دباؤ پر ٹرانسفر کیلئے حکام تعلیم پنجاب کو لکھ بھیجا۔ محمد ریاض خاں ای ڈی او ملتان کی جگہ شمشیر احمد خاں سی ای او تعلیم تعینات کر دئیے گئے یہاں پر سوال یہ ہے کہ محمد ریاض خاں کے خلاف انکوائر ی میں کوئی الزام ثابت نہیں ہوا صرف ٹرانسفر کروانا مقصود تھا اور وہ ہوگیا ۔اب پھر پنجاب کے سکولوں اور تعلیمی دفاتر میں درجہ چہارم کی خالی آسامیو ں پر بھرتی کا اشتہار دیاگیاہے اور درخواستیں جمع ہوچکی ہیں۔
ملتان میں چار سو سے زائد آسامیوں پر بھرتیاں کرنی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک سو آٹھ آسامیوں پر اپنے منظورنظرافراد بھرتی کرنے کا حکم بذریعہ ایڈمنسٹریشن دے دیا ہے اور باقی آسامیوں پر قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کا کوٹہ مختص کردیاگیا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ امیدواران کی جانب سے مختلف اضلاع میں ان تقرریوں کے ریٹ مقرر کرنے کی خبریں گرم ہیں، بھرتیاں ہونے پر پتہ چل جائے گا کہ کس امیدوار نے کتنے میں معاملات طے کرکے تقرر نامہ حاصل کیا ہے۔ تقرریاں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے اعلان کی سو فیصد نفی کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کے فلور سے چند وزراء نے آواز بلند کی کہ درجہ چہارم کی بھرتیاں کوٹہ سسٹم کے تحت کر نے کے پنجاب کے اضلاع میں معاملات طے ہوچکے ہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ درجہ چہارم کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں ہوتی بھی ہیں یا نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اب لانگ مارچ اور ماہ رمضان ایک کڑا امتحان بن چکے ہیں ۔