تراشے بْت، کورہ کاغذ اور کرائے کے گوریلے

قارئین آج جب میری یہ تحریر آپکی نظرِالتفات کا رزق چْن رہی ہو گی غالب امکان یہی ہے کہ اس سے پہلے ایک طرف وفاق میں اپوزیشن کی طرف سے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا تو ٹیبل ہو چکی ہو گی یا پھر انکی طرف سے اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرائی جا چکی ہو گی جس پر منعقدہ اجلاس میں پھر یہ تحریک پیش کی جائیگی تو دوسری طرف پنجاب میں بھی انہونی کا ایک ایسا کھیل کھیلا جائیگا کہ گجرات کے چوہدریوں کی سیاست کو ایک ایسا بندہ دھکا لگائے گا جسکو 2002ء میں انہوں نے ہی سیاست میں متعارف کروایا تھا۔ اس سے پیشتر کہ ان دونوں امکانی مہمات کی کامیابی اور ناکامی کے دعوؤں پر کوئی بات کی جائے مجھ جیسے کم فہم طالبعلموں کے ذہن میں ایک سوال اْبھرتا ہے کہ جب ساڑھے تین سال اپوزیشن اپنی پوری نفرت اور تگ و دو کے باوجود ایسی کوئی تحریک نہ لاْ سکی تو پھر وہ کیا محرکات یا اسباب بنے کہ ہر جاگتی آنکھ نے یہ نظارہ دیکھا کہ بستر علالت پر دراز زرداری صاحب آناً فاناً آندھی کے بگولے کی طرح اْٹھے اور سیدھے اس شہباز شریف کے ہاں کھانے پر پہنچ گئے جسکے متعلق یہ تاریخی حقائق اور شواہد موجود ہیں کہ شریف فیملی میں اگر زرداری صاحب کا سب سے بڑا ناقد اور مخالف کوئی موجود ہے تو وہ یہی شہباز شریف ہے۔ میں ابھی اس مخمصہ سے باہر نکل نہیں پا رہا تھا کہ میرا ہمزاد آ وارد ہوا اور مجھ سے یوں مخاطب ہوا کہ تمہیں یاد ہے کہ تم نے میرے کہنے پر ایک دس اور بارہ جنوری 2022کو اور ایک 20مئی 2021 کو سوشل میڈیا پر دو پوسٹیں لگائی تھیں جن میں ایک میں تم نے لکھا تھا کہ ‘‘ اصل گیم پندرہ فروری اور پندرہ مارچ کے درمیان ہو گی’’ جبکہ دوسری پوسٹ میں لکھا تھا ‘‘ علیم خان ڈارک ہارس اگر چوہدریوں نے اسکی ٹانگ نہ کھینچی‘‘ جانتے ہو انکے پیچھے کیا حقائق اور راز تھے۔ میں نے عرض کی بادشاہ سائیں اتنا باخبر ہوتا تو کسی چینل پر سقراط بقراط کے روپ میں بیٹھا بھاشن نہ دے رہا ہوتا۔ ہمزاد بولا اس ساری گیم کے پیچھے جو سائنس کار فرما ہے آج اس سے پردہ اٹھاتا ہوں اور تمہیں اور تمہارے قارئین کو نواز شریف کے پہلے دور کے بند کواڑوں کے پیچھے لیئے چلتا ہوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب اجلال حیدر زیدی، روئیداد خان، فضل الرحمان خان جیسے ہیوی ویٹ بیوروکریٹس پر مشتمل گروپ کی سول اسٹیبلشمنٹ میں اجارہ داری تھی اور انکی پشت پر اس وقت کا صدر غلام اسحاق خان موجود تھا جسکے متعلق یہ بھی حرف زبان زدِ عام تھا کہ نواز شریف کو وزارت عظمی کی کرسی کی عطا میں اس کارٹیل کا ہی سارا کمال تھا اور کہنے والے یہاں تک کہتے تھے کہ یہ دونوں نواز اور غلام اسحاق اسطرح ایک پیج پر تھے کہ ان دونوں میں سے ہوا کا گزرنا بھی محال تھا لیکن اسے وقت کی کرشمہ سازی کہیے کہ اس وقت کے لاہور ائیرپورٹ جسے اب پرانا ائیرپورٹ کہا جاتا ہے کے دوسرے رن وے کی تعمیر میں کچھ نقص نکل آئے جس پر نواز شریف نے ایک انکوائری کمیٹی بٹھا دی جسکی رپورٹ پر اس وقت کے سیکرٹری
 دفاع اجلال حیدر زیدی کو نواز شریف نے کھڈے لائن لگا دیا۔ ہمزاد کہنے لگا تمہیں یہ بھی یاد کراتا چلوں کہ اسی دن اسی لاہور شہر میں اس وقت کے ایک مشہور انگریزی اخبار کے چیف ایڈیٹر کے گھر تم نے یہ الفاظ کہے تھے کہ آج یہ لکھ لو کہ نواز شریف اب آج گیا یا کل گیا، جانا اسکا مقدر ٹھہر گیا۔ دوست لوگوں کے استفسار پر تم ہی نے یہ توجیہہ کی تھی کہ نواز شریف کو جو اب اصل میں وزیراعظم بننے کا شوق چڑھا ہے یہ اسے لے ڈوبے گا کیونکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہی رہے تو بات بنی رہتی ہے جب کوئی لائن کراس کرنے کی کوشش کرے تو اسے اس کی اوقات یاد کرا دی جاتی ہے کیونکہ جن ہاتھوں کے تراشے بْت ہوتے ہیں انہیں کبھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جو ہاتھ بت تراش سکتے ہیں وہ اْنہیں توڑ بھی سکتے ہیں۔ ان ایام کی تاریخ گواہ ہے کہ پھر کس طرح افتخار گیلانی سے اسمبلی میں 58 ٹو بی ختم کروانے کے متعلق ایک تقریر کروائی گئی اور پھر جو کھیل کھیلا گیا اسکی اپنی ایک داستان ہے جو پھر کبھی۔
ہمزاد کہنے لگا پچھلے چھ آٹھ ماہ سے موجودہ وزیراعظم بھی اپنے آپکو حقیقی وزیراعظم کے روپ میں دیکھنا شروع ہو گیا تھا اور اس نے چند ایسے فیصلے اور اقدامات اْٹھائے جن سے ایک پیج پر لکھی تحریر کی سیاہی کچھ اسطرح ماند پڑنا شروع ہو گئی کہ اس ایک پیج کی حیثیت ایک کورے کاغذ کی مانند رہ گئی۔ اسکے پس پردہ محرکات میں حالیہ سول سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں جو کھیل کھیلا گیا وہ اپنی الگ ہی تاریخ رقم کر گیا جسکی داد رسی کیلیئے متاثرہ بیوروکریٹ کی اچھی خاص تعداد معزز عدلیہ سے رجوع کر چکی مگر اس سے بڑھ کر جسے سیاسی پنڈت بلنڈر کا نام دے رہے ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ اہم تقرریوں اور تبادلوں کے سلسلے میں صاحب تذکرہ کے کچھ ایسے اقدامات اور مستقبل کے حوالے سے کچھ ایسے رازدارانہ فیصلے جو وقت کی ضرورت ہوتے ہیں انکا قبل از وقت تبادلہ خیال بھی کوئی الگ سے ہی داستان سنائی دینے لگا جسے انہونی کا نام دیا جا سکتا ہے جس سے نباض لوگوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ فروری اور مارچ کے مہینے ہونگے جب میدان جنگ سجے گا اور موصوف کو پتہ چلے گا کہ اسکی اپنی کمین گاہ میں کتنا اسلحہ موجود ہے اور اس کمین گاہ میں کتنے کرائے کے گوریلے تھے جن پر اس کو اپنے فاتح ہونے کا یقین تھا لیکن مشتری ہوشیار باش ایک ایسااعلان پوری کی پوری گیم پلٹ بھی سکتا ہے جسکی طرف بناسپتی دانشوروں کی نظر ہی نہیں پڑ رہی۔ انتظار فرمائیے

ای پیپر دی نیشن