مقتل یہ بتاتے ہیں قاتل کی جوانی ہے

 آج کل ہر طرف پی پی پی کے لیڈر مسٹر بلاول کے لانگ مارچ کے چرچے ہیں ۔اگرچہ عمران خان کا دھرنا ایک سو بیس دن سے بھی زیادہ جاری رہا تھا ،اور اسی دھرنے میں یوٹیلٹی بلز کو آگ بھی لگائی جاتی رہی اور تھرڈ امپائر بمعنی اسٹیبلشمنٹ کو مدد کے لئے کئی بار دعوت دی جاتی رہی اور ان کے ساتھ مولانا طاہر لقادری بھی موجود ہوتے ، لیکن اسی دوران ان کے پارلیمنٹ پر حملے ، ٹی وی سٹیشن پر حملے، بلوں کو آگ لگانا سول نا فرمانی کی یاد دلاتا رہا۔ اسی لئے آج اگر بلاول یا مولانافضل رحمان اسلام آباد کی طرف حکومت مخالف مارچ کرتے ہیں یا مرحوم مولانا خادم رضوی بھی دھرنا کے لئے اسلام آ باد پہنچ جایا کرتے تھے، تو پھر آج اگر مسٹر بلاول بھی شائد انہی کے قدموں پر چل کر اسلام آباد کو فتح کر نے کا عارضہ لئے پھر رہے ہیں، تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں کہ یہ رسم جہانگیری، جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد بھی وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر کے خلاف ادا کر چکے ہیں۔ ان تمام لانگ مارچوں یا دھرنوں کے روح رواں پس پردہ ہر کوئی فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو اپنا مدد گار قرار دیتا رہا ہے۔ خدا مغفرت کرے جنرل حمید گل کی کہ انہوں نے میڈیا کے سامنے خود تسلیم کیا کہ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر حکومت کو ڈکا لگانے کے لئے انہوں نے بحیثیت ٓائی ایس آئی سربراہ ، آئی جے آئی بنائی‘ انہوں نے مسٹر نواز شریف کو وزیر اعلی پنجاب ہر قیمت پر براجمان کر کے دکھایا اور اس طرح مرکز میں بے نظیر کو مجبور پس ثابت ہوا کے جنرل ایوب کی مارش لاء سے، ضیا ڈکٹیٹر کے دور میںبھٹو کی پھانسی تک ، پھر بے نظیر کے خلاف آئی جے آئی بنانے تک، بعد میں اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو، پہلے مشرف سے دیس نکالا دینے سے لے کر عمران حان کے دھرنوں سے ہٹانے تک کا ایک قبیح عمل انجام پاتا رہا کہ ہم جمہوریت کو پختہ کرنے کی آرزو میں آج کوچہ قاتل تک جا پہنچے اور آج مسٹر بلاول بھی اسی راستے پر چل کر حکومت ہٹائو مہم جوئی کر نے ، لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچنے کا مصمم ارادہ  لئے ہوئے ہیں۔ کہ ’’یہ تو وہ ہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘ کی بجائے ،،سب ،،جہاں سے۔ قارئین آج ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ جنوبی کوریا کی رہنما ، پارک ہوئی،، کو کرپشن میں سزا کے بعد بیماری کی وجہ سے رہائی ملی ہے۔ ان پر مشہور زمانہ مو بائل کمپنی،،سام سنگ ،،سے کک بیک یا مالی بددیانتی کا الزام ثابت ہوا تھا۔ ایسے ہی بنگلہ دیش میں ان کی سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیا جیل میں سزا کاٹ رہی ہیں۔کچھ دیر پہلے انڈونیشیا میں وزیراعظم کو کرپشن میں سزاہو چکی ہے  ایسے ہی ہمارے ہمسائے انڈیا میں ان کے وزیراعظم پی وی نرسیما رائو بھی جیل کاٹ چکے ہیں ۔ یاد رہے یہ وہ ہی نرسیمارائو ہیں جنہوں نے ،،اوپن مارکیٹ،، کے عملی نفاذ سے جو کہ ان کے بانی پنڈت نہرو کی انڈسٹری قومیانے کی پالیسی کے حلاف قومی ترقی میں ایک نئی احتراع تھی، سے انڈیا کی معاشی ترقی میں بڑا پھیلائو آیا تھا ، لیکن وہ بھی جیل یاترا کر کے ہی آئے ۔ لیکن صرف ایک ووٹ کی خریدوفروخت میں ملوث پائے جانے کے سبب جیل کاٹتے رہے۔ہمارے ملک عزیز میں ہر سیاستدان کروڑوں میںکھیل رہا ہے جبکہ ہمارے ہمسائے انڈیا میں ایک عام شہری سے بھی کم وسائل رکھنے والاشہری مسٹرکجروال،وزیر اعظم مودی کی ناک کے عین نیچے  ان کا سیاسی مخالف ہوکردہلی کا وزیر اعلی بنے بیٹھے ہیں ۔ وہیں محترمہ مماتا بینرجی بنگال کی وزیراعلی ہیں جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ خود اپنے گھر کا  تمام کام خود کام کرتی ہیں اور ان کی کوئی پراپرٹی تک نہیں۔حتی کے مودی جی جن کو ہم ہندو پرست سمجھتے ہیں، اور انتہائی متنازعہ پالیسیوں کے حامل ہیںکی بھی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کی تو دنیا ہی علیحدہ ہے جن کو ستر سالوں ہونے کو ہیں کوئی اسمبلی میں ان کو دادا گیری سے آج تک نہیں روک سکا  ان کی جاگیروں ، زمینوں کی وسعت کو کوئی چھیڑ نہیں سکا۔ کیونکہ وہ پاکستان بننے کے پہلے دن سے آج تک اسمبلیوں کی سیٹوں پر قابض و براجمان ہیں۔ان کے خلاف ان کی، زمینوں، جاگیروں میں اسمبلیوں میں ان کی موجودگی میںبھلا کیسے کوئی قانون بنا پاتا۔حیف صد حیف۔
اس شہر کے قاتل کو دیکھا تو نہیں 
مقتل یہ بتاتے ہیں قاتل کی جوانی ہے
کیا یہ ریاست کے اندر ہی کوئی الگ ریاست تونہیں۔ ہم گالیاں تو سبھی کو دینے میں ید طولی رکھتے ہیں لیکن اپنے ’’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘ کے مصداق اپنے اندر کیوں نہیں دیکھتے۔ کیا سفارش کے بغیر ہر عام پاکستانی محترم صدیق سالک  کی کتاب کے،پریشر ککر،، کی طرح کب تک زندگی گزارے گا۔

ای پیپر دی نیشن