ضیاء الرحمان ضیاء
فنی تعلیم ایسی تعلیم ہوتی ہے جو انسان کو ہنر مند بناتی ہے اور انسان کو دوسروں کا محتاج بنائے بغیر بہترین روزگار کے حصول کے قابل بناتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں فنی تعلیم عصری تعلیم کا لازمی جز ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آج ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ ہمارے ملک کے فرسودہ تعلیمی نظام میں ایک بڑی خرابی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہاں فنی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی، یہاں طلبا نمبروں اور ڈگریوں کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر نمبر حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور اس کے بعد ڈگریوں کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔ جو طلبا میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں اچھے نمبر حاصل کر لیتے ہیں وہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں چلے جاتے ہیں اور جو نمایاں نمبر حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ آرٹس کے کسی مضمون میں بی اے اور ایم اے کر لیتے ہیں۔
ان تمام طلبا کا خواہ وہ سائنس کے مضامین پڑھتے ہوں یا آرٹس کے ،سب کے حصول تعلیم کا مقصد فقط سرکاری ملازمت ہوتی ہے کہ کسی طرح ڈگری حاصل کریں اور اچھی سرکاری ملازمت مل جائے ان کی تعلیم کا مقصد صرف اتنا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تمام ڈگری ہولڈر ملک کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ہیں بلکہ وہ ملک پر بوجھ بنتے جارہے ہیں کیونکہ وہ ڈگریاں اٹھا کر سرکاری ملازمت ڈھونڈتے رہتے ہیں سرکاری ملازمت نہ ملنے پر پرائیویٹ ملازمت تلاش کرنے لگ جاتے ہیں اور انتہائی کم تنخواہوں پر ملازمتیں کرتے رہتے ہیں جو ان کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے تو ملک کو انہوں نے کیا فائدہ پہنچانا۔
ان طلبائ کو اگر ڈگریوں کے حصول میں پڑنے کی بجائے فنی تعلیم دے دی جائے تو یہ نہ صرف اپنے لئے بہترین روزگار کا انتظام کر سکتے ہیں بلکہ یہ ملک کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ جب کسی طالب علم کے پاس علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ہوتا ہے تو وہ ملازمتوں کی تلاش کی بجائے تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے اس طرح وہ اپنے لئے بہترین روزگار کا انتظام بھی کرتا ہے اور ملک کی صنعت و حرفت کی ترقی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے اکثر ممالک میں طلبا کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر ہی انہیں مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ چین کے تعلیمی اداروں میں طلبائ کو زراعت بھی سکھائی جاتی ہے چین جاپان کوریا ، فن لینڈ ، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک ایسے ہیں جہاں فنی تعلیم کا رجحان ستر سے سو فیصد تک ہے اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں یہ رجحان محض 5 سے 6 فیصد ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں فنی تعلیم کے شعبے کو کس قدر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شعور کی کمی کی وجہ سے ہاتھ سے کام کرنے والے کو ناکام اور چھوٹا انسان سمجھا جاتا ہے جبکہ کامیاب صرف اسی کو سمجھا جاتا ہے جو سوٹ بوٹ پہن کر کرسی پر بیٹھا ہو۔ حالانکہ ہاتھ سے کام کرنے والے ملک کی صنعت و حرفت کو چلا رہے ہوتے ہیں اور یہی اصل میں ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
لہذا ہماری حکومتوں کو اس شعبے کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ فنی تعلیم کو عام کیا جائے طلبہ میں شعور پیدا کیا جائے کہ فنی تعلیم ڈگری حاصل کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور آسان ہے۔ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے اور حکومت مختلف علاقوں میں تمام سرکاری سکولوں کے اندر یا ان کے قریب فنی تعلیم کے مراکز قائم کرے۔ ہمارے ملک میں جو ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر۔ اور جو قائم ہیں ان میں بھی دو چار شعبوں میں ہی کام ہو رہا ہے اس کے علاوہ وہاں بھی کوئی خاص فنی نہیں دی جا رہی۔
فنی تعلیم کے شعبے کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے چند روز قبل میرا لیپ ٹاپ خراب ہوگیا میں اسے ٹھیک کروانے کے لیے لے گیا اور ر یپئرنگ کرنے والے کے پاس ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا جس کی داڑھی بھی پوری طرح نہیں آئی تھی وہ اس کا شاگرد تھا، وہ نوجوان بات بات پر زبان سے انتہائی بری گالیاں نکال رہا تھا جسے وہ برا ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ نوجوان اگر کسی تعلیمی ادارے سے یہ فن سیکھ کر آیا ہوتا تو شاید اس قسم کی زبان استعمال نہ کرتا اور انتہائی شائستگی کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیتا۔ اس لیے فنی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور خاص طور پر جو بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے انہیں ان اداروں میں فنی تعلیم دی جائے جس کے ساتھ انہیں لکھنا پڑھنا بھی سکھایا جائے اور اسلامیات واخلاقیات کا درس بھی دیا جائے یوں وہ بہتر طریقے سے معاشرے کی خدمت سرانجام دے سکیں گے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے جائیں گے۔
ضیائ الرحمن ضیاء
ہمارے تعلیمی نظام میں فنی تعلیم کا فقدان
Mar 09, 2023