شہر ِ اقبال کا ”سیال“

Mar 09, 2023

طاہر جمیل نورانی


قطر میں 2022ءمیں کھیلے گئے عالمی فٹ بال میچز میں جس فٹ بال کا استعمال کیا گیا اور جس شہر کو فٹ بال تیار کرنے کا یہ اعزاز حاصل ہوا‘ میرا تعلق بھی اسی تاریخی شہر سے ہے۔ سیالکوٹ ایک مردم خیز مگر سپورٹس اور سرجیکل انسٹرومنٹس کا ایسا شہر ہے‘ بین الاقوامی سطح پر جسے شہر اقبال کے نام سے جانا اور پہچانا چاہتا ہے‘ میں اپنے اس شہر کو ”ماں“ کا درجہ اس لئے بھی دیتا ہوں کہ اپنی امی مرحومہ کی قبر پر حاضری دینے کے بعد اپنی اس ”ماں“ کو بوسہ دینا میں نے اپنی زندگی کا جزو بنا رکھا ہے۔ مختصر مدت کیلئے جب بھی یہاں آتا ہوں ماضی میں باسکٹ بال کے ممتاز قومی کھلاڑی‘ ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر اور سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بانی چیئرمین میاں محمد ریاض اپنی میزبانی میں لے لیتے ہیں۔ بھرپور کوشش رہتی ہے کہ باسکٹ بال دور کے اپنے ان ”یاروں“ سے بھی ملاقات کر پاﺅں جو تلاش معاش کے جھمیلوں سے آزاد ہو کر اب سینئر سٹیزن کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے سکول کالج کے ان اساتذہ کرام کی بھی قدم بوسی کروں جو حیات ہیں مگر افسوس! اپنی ان خواہشات میں کوشش کے باوجود بعض اوقات کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنی باجی مرحومہ کی رحلت پر چند روز کیلئے پہلے ملتان اور پھر سیالکوٹ آنا ہوا۔ جہاں اپنے پچاس برس دیرینہ خواب کی تعبیر کو ممکن بنایا۔ خواب کیا تھا‘ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے آبائی مکان اور اس گھر کو بوسہ دینا جہاں اقبالؒ نے اپنا بچپن اور جوانی کے مخصوص ایام گزارے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے سیرت سٹڈی سنٹر سیالکوٹ کے وائس چیئرمین برادر داﺅد سایئر ایڈووکیٹ اور سیکرٹری جنرل اسد اعجاز کی خصوصی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس مطالعاتی دورے کے تمام تر انتظامات چونکہ سیرت سٹڈی سنٹر کے تعاون سے کئے گئے اس لئے شاعر مشرق کی 1912ءمیں تعمیر کی گئی اس تاریخی رہائش گاہ پہنچنے پر محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کی جانب سے تعینات چیف لائبریرین سید ریاض نقوی صاحب اور انکے معاونین نے انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ شاعر مشرق کے تاریخی مکان میں داخل ہوتے ہی نقوی صاحب نے مکان نے مختلف حصوں کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر اقبال کی پیدائش کا وہ کمرہ ہمیں دکھایا گیا جہاں 73 برس پرانا سیلنگ فین آج بھی جوں کا توں ہے۔ اس کمرے میں جھولا اور مخصوص حقہ رکھا گیا ہے۔ اگلا کمرہ اقبال کی والدہ مرحومہ امام بی بی کا ہے جن کا نومبر 1914ءمیں انتقال ہوا۔ 
دوسری منزل میں ڈاکٹر صاحب کی کھانا کھانے کی پلیٹس‘ قلم دوات اور وہ ہولڈرز رکھے ہیں جس سے شاعر مشرق اپنا کلام لکھا کرتے تھے۔ اسی طرح علامہ صاحب کی لکھائی پڑھائی اور ساتھ آرام کرنے کا کمرہ ملحقہ کمرہ ملاقاتیوں اور شعراءکیلئے وقف تھا۔ اسی کمرے میں 1840ءکا لیمپ بھی موجود ہے جسے جلا کر علامہ اقبال شاعری اور مطالعہ کیا کرتے تھے۔ دیواروں کے دونوں اطراف نایاب تصاویر‘ تاریخی خطوط اور اقبال کے نام لکھے پیغامات آویزاں ہیں۔ ان تصاویر میں انکی والدہ مرحومہ امام بی بی‘ استاد گرامی شمس العلماءمولوی میر حسن مرحوم۔ لندن میں 1932ءمیں مسلم سٹوڈنٹس کی جانب سے دی گئی ڈنر پارٹی۔ 1931ءمیں سر ظفراللہ خان کے ہمراہ بکھنگم پیلس کا دورہ‘ 1929ءمیں غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ میں خصوصی شرکت۔ اپنی آبادئی درسگاہ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ اور گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارے ایام تعلیم اور اپنی والدہ کی علالت کے بارے میں 11 نومبر 1914ءکو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھا خط۔ ہاتھ سے تحریر کردہ نعتیہ کلام ”لوح بھی تو قلم بھی تو“ اور ”یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے“ اور اسی طرح جاوید اقبال کے نام کتابوں کا وہ وصیت نامہ جو اقبال نے 13 اکتوبر 1935ءمیں لکھا۔ دیواروں پر آپ کو واضح اور نمایاں نظر آتا ہے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شاعر مشرق نے پنجابی کلام بھی لکھا۔ ”پیارا جیدی“ اور ”میابکری“ والا انکے شہرہ آفاق کلام ہیں۔ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی انکی خصوصی نظم انکے پیدائشی کمرے کی زینت ہے۔ اس تاریخی مکان کے بارے میں میرے سوال پر ریاض نقوی نے بتایا کہ اقبال کی یہ قدیم رہائش گاہ 1912ءمیں تعمیر کی گئی جسے حکومت پاکستان نے 1970ءمیں ایک لاکھ 25 ہزار روپے میں خرید لیا اور یوں یہ یادگار تاریخی مکان اب محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے زیرنگرانی سیاحوں کیلئے خدمات اور سہولتیں فراہم کررہاہے۔ لفظ ”سہولتیں“ سن کر مجھے دھچکا لگا۔ اس دھچکے کی بنیادی وجہ شاعر مشرق نے اس آبائی مکان کے ساتھ گزرنے والی مین روڈسے جاری بھاری ٹریفک Encrochment ‘ ڈیزل چھوڑتے رکشے‘ موٹر سائیکلیں‘ سڑک کے دونوں اطراف پھیلی گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دیکھنے کے بعد میرے لئے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ تھا کہ غیرملکی سیاح کا شاعر مشرق کے آبائی مکان کا دورہ کرنا اور گاڑی پارکنگ سہولتوں کے بغیر آٹھ منٹ پیدل سفر کرنے کے بعد اس تاریخی مکان تک آنا قطعی دشوار ہے۔ نقوی صاحب سے ان مشکلات کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے اقرار کرتے ہوئے تمام تر معاملہ ضلعی انتظامیہ بالخصوص ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ اور آثار قدیمہ پنجاب پر چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک‘ پارکنگ‘ اور مکمل سیاحتی معلومات اور اطلاعات نہ ہونے کی بنا پر بہت کم شخصیات اس مکان کو دیکھنے آتی ہیں۔ نقوی صاحب کی دی گئی ان معلومات کے بعد میں نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ مسٹر عدنان اعوان سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مسٹر عدنان اعوان ایک ینگ ڈی سی ہیں‘ اپنے دفتر میں انہوں نے میرا اور ”سیال“ کے بانی چیئرمین میاں محمد ریاض کی انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اقبال کے اس تاریخی مکان کے بارے میں ٹریفک‘ پارکنگ‘ گندگی اور سڑک کے اطراف غیرقانونی رکاوٹوں کے موزوں مگر فوری حل کیلئے میری تجاویز پر عملدرآمد کروانے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان مشکلات کا وہ ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کرینگے۔ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے موجودہ چیئرمین خواجہ مسعود اختر (ستارہ¿ امتیاز) صاحب سے ایئرپورٹ کے بانی چیئرمین میاں محمد ریاض نے میری ملاقات کا پہلے ہی وقت طے کر رکھا تھا۔ خواجہ صاحب ایک بڑی سپورٹس انٹرنیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ قطر میں ”فیفا“ کے تحت اس بار بھی 2022ءمیں کھیلے گئے ورلڈ فٹ بال میچز میں انہی کی فیکٹری کا تیار شدہ فٹ بال استعمال ہوا۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ بیرون ملک سالانہ وہ 15 ملین فٹ بال بھجواتے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ بعض حکومتی قوانین سے ”ایکسپورٹرز“ نقصان سے دوچار ہو رہے ہیں۔ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ”سیال“ سے سالانہ دس لاکھ مسافر بیرون ممالک روانہ ہوتے ہیں۔ ایئر پورٹ کو اس مرتبہ چار بلین منافع ہوا جس میں ایک بلین ٹیکس ادا کیا گیا۔بعض لوگ چونکہ رن وے ٹیکنکی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے اس لئے ”سینہ¿ گزٹ“ کا سہارا لیتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جب ہم نے یہ ایئرپورٹ تعمیر کیا تو بھاری مالی مجبوریوں کی بنا پر ہم نے کنکریٹ کے بجائے Flexable رن وے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جس کی Maintainance کیلئے 10 سے 12 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ الحمدللہ۔ Longest رن وے ہے جو بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے تحت بھاری اور لائٹ حجم کے طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کیلئے مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ 

مزیدخبریں