سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد صوبائی انتخابات کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ عمران خان کا دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ صرف ان دو صوبوں میں انتخابات کرائے جائیں، ان کا بنیادی مقصد وفاقی حکومت اور اداروں پر دباو¿ ڈالنا تھا کہ پورے ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں مگر پی ڈی ایم کی حکومت ابھی عام انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ اب ان موجود آپشنز کا جائزہ لیتے ہیں جو حکومت انتخابات کے التوا کے لیے بروئے کار لاسکتی ہے۔
ایک آپشن یہ نظر آرہا ہے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے انعقاد سے متعلق فیصلہ کے خلاف کوئی ایک فریق نظرثانی کی اپیل میں چلا جائے گا، حکومت کی طرف سے ایک بار پھر فل کورٹ بنچ بنانے کا مطالبہ دہرایا جائے گا۔ اگر یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا تو حکومت کے موقف کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلہ کی توضیح کے لیے سوال اٹھایا جائے گا کہ آیا یہ فیصلہ تین اور دو سے ہوا ہے کہ چار اور تین کے فرق سے ہوا۔ آج تک کبھی نہیں ہوا کہ بنچ میں موجود ججز اپنے اختلافی نوٹ میں ان ججز کے موقف سے اتفاق کریں جو بنچ میں شامل ہی نہیں تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی اگر بنچ میں نہیں تھے تو ان کا حوالہ نہیں دیا جانا چاہیے تھا مگر جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ وہ اپنے دو برادر ججز کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ انتخابات کے مسئلہ پر سو موٹو اختیار سماعت نہیں بنتا۔
دلچسپ بات یہ کہ جب نو رکنی بنچ بنا تھا تو جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھایا گیا کہ دونوں معزز جج صاحبان سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر کے تبادلہ کے کیس میں الیکشن کرائے جانے کے معاملہ پر اپنی واضح رائے دے چکے تھے، لہٰذا ان دونوں معزز جج صاحبان کو خود کو بنچ سے الگ کرلینا چاہیے۔ یہ اعتراض حکومتی وکلاءکے علاوہ خود سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز کی طرف سے کیا گیا تھا۔ دونوں جج صاحبان نے انصاف پر مبنی فیصلہ کیا اور بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ اس موقع پر ایک مکالمہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے درمیان ہوا، جب چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بھی بنچ سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں؟ جسٹس یحییٰ آفریدی کا جواب بڑا معنی خیز تھا، انھوں نے کہا وہ خود کو بنچ سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتے مگر چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں کہ وہ انھیں بنچ میں رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ میں شامل نہ کیے گئے مگر اس کی کوئی وجہ اور جواز بھی نہیں دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے سنائے گئے 28 فروری کے فیصلہ میں جو یکم مارچ کو مکمل فیصلہ تحریر کیا گیا کی رو سے سپریم کورٹ کا تشکیل شدہ بنچ بلاجواز تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لگتا ہے کہ نظرثانی کی اپیل میں اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
درج بالا صورت حال میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس ایک آپشن یہ ہوگا کہ نظر ثانی اپیل کے لیے فل کورٹ یا ایک لارجر بنچ تشکیل دیں۔ ایک مطالبہ پھر دہرایا جائے گا کہ سینئر ججز، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بھی لارجر بنچ میں شامل کیا جائے۔ نو ججز پر مشتمل بنچ کے وقت بھی یہ مطالبہ کیا گیا تھا مگر چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بنچ میں شامل نہیں کیا تھا۔ اگر ایک بار پھر اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو اس گمان کو تقویت ملے گی کہ مخصوص سیاسی معاملات کے لیے مخصوص ججز پر مشتمل بنچ قائم کیے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے وقار کے لیے اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے تاکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرا¿ت نہ ہو۔ غالب امکان ہے کہ فل کورٹ یا لارجر بنچ بننے کی صورت میں سپریم کورٹ نوے روز میں دو صوبائی انتخابات کرانے کا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔
اگر فل کورٹ اور لارجر بنچ نہیں بنتا، سات ممبرز پر مشتمل بنچ پر بھی اتفاق نہیں ہوتا اور چیف جسٹس وہ ہی پانچ ممبر بنچ ہی تشکیل دیتے ہیں تو پھر بھی یہ امکان موجود ہے کہ جو فیصلہ تین اور دو کی اکثریت سے آیا تھا وہ تین اور دو کی اکثریت سے تبدیل ہوجائے۔ اس صورت میں جسٹس محمد علی مظہر اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے پورے ملک میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی روز نگران حکومتوں کی زیرنگرانی میں عام انتخابات تک بات جا پہنچے مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ تبدیل نہ ہونے سے حکومتی حلقوں میں یہ تاثر زور پکڑے گا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں حکومتی مخالف سیاسی قوتوں کو ریلیف ملتا رہے گا تو امکان ہے کہ حکومت اس سال ستمبر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کا انتظار نہ کرے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس آجائے کہ ان کا طرزعمل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے شایان شان نہیں، کیوں نہ انھیں آئینی ادارے اعلیٰ عدالتی کونسل کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ ماضی میں اعلیٰ عدالتی کونسل کے ذریعہ ججز کو ہٹانے کی مثالیں تو موجود ہیں مگر چیف جسٹس کو اعلیٰ عدالتی کونسل کے ذریعے نہیں ہٹایا جاسکا، البتہ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلہ کے ذریعے اپنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹادیا تھا۔