دنیا کو دیکھنے کا سرمایہ دارانہ زاویہ


کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا بین الاقوامی دن منایا گیا۔ یہ دن کب سے اور کیوں منایا جاتا ہے ان موضوعات پر حالیہ دنوں میں اردو اور انگریزی اخبارات میں بہت کچھ شائع ہوچکا ہے، لہٰذا ان باتوں کو دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا تاہم یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی خواتین کے حوالے سے ایسے بہت سے حقیقی مسائل موجود ہیں جن کو نہ صرف موضوعِ بحث بننا چاہیے بلکہ سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ ان مسائل کو حل کیسے کیا جائے۔ پاکستان کے حوالے سے تو یہ بات بھی افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں بات بات پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو آزادی اور حقوق دیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری خواتین کو ایسے بہت سے حقوق ہرگز نہیں مل رہے جن کی اسلام ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جائیداد میں خواتین کا وراثتی حصہ اور رضامندی سے شادی دو ایسے ہی معاملات ہیں جن کے بارے میں اسلام کی تعلیمات واضح ہیں لیکن ہمارا معاشرہ آج بھی ان پر عمل نہیں کررہا۔
پاکستان میں خواتین کا بین الاقوامی دن مخصوص حلقوں کی جانب سے جیسے منایا جاتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ لوگ معاشرے کو کس رنگ میں رنگنے کے خواہاں ہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں اس دن کو منانے کے لیے جو جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں ان میں جس قسم کے بینرز وغیرہ لہرائے جاتے ہیں ان پر لکھی ہوئی عبارتوں سے بھی یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ کس کے ایجنڈے کا حصہ ہے یا ہوسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ کے کئی ممالک ان غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور افراد کی باقاعدہ سرپرستی کرتے ہیں جو اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کئی نعرے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کردیے جاتے ہیں اور انھیں پیش کرنے والے کھلے عام اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہاں ہم فلاں بات کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ فلاں فلاں معاملے کو مرضی کے مطابق آگے بڑھایا جائے۔
اس سلسلے میں جن معاملات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے ان کا تعلق معاشرے کے بنیادی عناصر یا اجزا سے ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ادارہ¿ خاندان ان افراد اور تنظیموں کا سب سے زیادہ نشانہ بنتا ہے جو مغرب کے ایما پر ایسے دن ایک خاص طریقے سے مناتے ہیں۔ وہ میاں بیوی کے تعلق کو اسلامی یا مشرقی روایات کے مطابق چلانے کی بجائے اس بات پر زور دیں گے کہ مغرب کے زاویہ¿ نظر کو سامنے رکھ کر میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے۔ مغرب میں میاں بیوی کے تعلقات کتنے مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں ان پر بحث کا یہ محل نہیں لیکن یہ طے ہے کہ وہاں کوئی میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ادارہ¿ خاندان کسی ایسی شکل میں ہرگز موجود نہیں کہ باقی دنیا اسے اپنے لیے آئیڈیل قرار دے کر ان کی پیروی کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے۔
اسی ضمن میں گزشتہ روز اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آفس کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں خواتین کا زیادہ تر وقت اپنے گھروں میں ایسے کام کرتے ہوئے گزرتا ہے جن کے لیے انھیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا اور ان کے بلا معاوضہ ایسے کام کرنے کی وجہ سے دنیا بھر کی لیبر مارکیٹ میں خواتین اور مردوں کو ملنے والے کام کے معاوضے کا فرق پیدا ہوتا ہے یعنی خواتین کو مردوں کو مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے یا ڈی ڈبلیو نے اسی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز خواتین مجموعی طور پر ساڑھے بارہ ارب گھنٹے ان کاموں کو کرنے میں گزار دیتی ہیں جن کا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ یہ صرف ایک رپورٹ ہے، ایسی اور بھی بہت سی رپورٹیں بنائی اور بنوائی جاتی ہیں جن کا مقصد دنیا بھر کی عورتوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ان کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، لہٰذا ان رپورٹوں کے ذریعے انھیں آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں جس زاویے کو سامنے رکھ کر خواتین کے گھروں میں کیے جانے والے کاموں کو بلا معاوضہ قرار دیا گیا ہے وہ چیزوں یا معاملات کو دیکھنے کا سرمایہ دارانہ زاویہ ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت سرمایہ داریت نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اقوامِ متحدہ یا کوئی بھی اور بڑا اور اہم بین الاقوامی ادارہ سرمایہ داریت کے دیے گئے زاویے سے ہٹ کر چیزوں کو دیکھنے یا ان کا جائزہ لینے کی بات کرے ورنہ بآسانی یہ بتایا جاسکتا ہے کہ آج سرمایہ داریت جسے بلا معاوضہ کام کہہ کر خواتین کو ’بیدار‘ کرنا چاہ رہی ہے وہ اصل میں کام ہے ہی نہیں بلکہ محبت و ایثار کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، جسے انگریزی میں Labour of Love بھی کہا جاسکتا ہے، اور یہ بالکل ویسا ہی طریقہ ہے جیسا دنیا بھر میں تمام مرد بھی اس وقت اختیار کرتے ہیں جب وہ اپنے گھروں میں ڈرائیور، پلمبر، الیکٹریشن، مالی، گارڈ اور دیگر کئی حیثیتوں میں ’بلا معاوضہ‘ کام کررہے ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن