ان دنوں محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں ۔ ان کا تعلق ایک میڈیا ہاﺅس سے ہے ۔ وہ اخبار اور ٹی وی چینل چلانے کے تجربے و مہارت سے لیس ہیں۔انکے ساتھ عامر میر کے پاس وزارت ِ اطلاعات کا قلمدان ہے ۔ ڈاکٹر اکرم صحت کی وزارت چلارہے ہیں اس طرح یہ حکومت صحافیوں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی پچھلی نگران حکومت میں بھی ایک میڈیا پرسن نگران وزیراعلیٰ تھے۔ لیکن میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا ، کیونکہ ڈاکٹرحسن عسکری پنجاب یونیورسٹی کے ایک استاد تھے اور تعلیم وتحقیق کے ماہر شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ اخبارمیں مضامین بھی لکھتے ہیں اور ایک ٹی وی چینل پربھی اظہار خیال فرماتے ہیں۔ لیکن صحافت ان کا بنیادی پیشہ نہیں ہے۔ البتہ انکے ساتھ احمد وقاص ریاض کا تعلق شعبہ صحافت سے ہے، وہ پاکستانی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں ۔ امریکہ میں قیام کے دوران انہوں نے دو اخبارات بھی شائع کئے اور ان کی باقاعدہ ادارت بھی سنبھالی ۔ وہیں ایک اردو اخبار میں وہ برسوں سے کالم بھی لکھتے رہے۔ڈاکٹر حسن عسکری کیساتھ وزیرداخلہ کے طورپر ایک ریٹائرڈ آئی جی کام کرتے رہے ہیں، اس طرح ان کی حکومت بھی ایک ٹیکنوکریٹ کی حکومت تھی۔ ان سے قبل نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ رہے۔ تب تک وہ ایک پیشہ ورصحافی کے طور پر فرائض ادا کررہے تھے۔ مگر حکومت ختم ہونے کے بعد وہ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کے سربراہ بن گئے ۔ جس سے انکے دونوں پیشے گڈمڈ ہو کررہ گئے۔ اب آپ انہیں بیک وقت ایک صحافی اور ایک ٹیکنوکریٹ کہہ سکتے ہیں۔ ان سے قبل جسٹس اعجاز نثار پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے، انہیں بھی ٹیکنوکریٹس میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کی باتیںاکثر ہوتی رہتی ہیں ۔ اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ زیادہ فعال طریقے سے گورننس کے امور چلاسکتے ہیں اور ایک صاف شفاف سسٹم کو روبہ عمل میں لاسکتے ہیں۔ مگر پاکستان میں ٹیکنوکریٹس حکومتوں کے تجربات نے کیا گل کھلائے، اسکی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے استاد محترم اورسینئرصحافی ارشاد احمد حقانی نے ایک زمانے میں اپنے کالم میں نوازشریف کی حکومت توڑ کر ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کی پیشکش کی اور انہوں نے کابینہ کے ممبران وزراءکے نام تک پیش کردیئے ۔ اس پر بعض حکومتی حلقوں نے شور مچایاکہ جناب ارشاد احمد حقانی غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لئے ان پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلایا جائے ۔ میں نے حقانی صاحب کی حمایت میں دو کالم تحریر کردیئے ۔ تو مجھے اسلام آباد سے محترمہ ملیحہ لودھی کا فون آیا کہ آپ کو بھی حقانی صاحب کے ساتھ غداری کے مقدمے میں نتھی کیا جارہا ہے ۔ اس لئے ذرا اس مقدمے کو بھگتنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ معلوم نہیں ہم پر یہ مقدمہ کیوں نہ چلا اوررات گئی ،بات گئی کے مصداق بات آئی گئی ہوگئی ۔ وفاق میں معین قریشی حکومت بھی ٹیکنوکریٹ قسم کی تھی، وہ تو اس حال میں نگران وزیراعظم بنے کہ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہ تھا۔حکومت چلانے کیلئے انہیں راتوں رات درآمد کیا گیا تھا۔ پاکستان میں جتنی مارشل لاءحکومتیں آئیں، انہیں بھی ہم ٹیکنوکریٹس میں شمار کرسکتے ہیں، کیونکہ فوجی جرنیل نہ تو سیاستدان ہوتے ہیں ،نہ فوجی اکیڈمیوں میں کسی قسم کی سیاسی تربیت دی جاتی ہے۔ البتہ نظم ونسق چلانے کے تجربے سے وہ ضرور بہرورہوتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اچھا چلائیں یا برا چلائیں۔جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاءکے دوران پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ پنجاب کی حالیہ نگران حکومت کو نوجوانوں کی حکومت بھی کہا جاسکتا ہے ۔بلکہ ایک وزیر تو انتہائی کم سن ہے ۔شاید ان کا نام سب سے کم عمروزراءکی صف میں گنیزبک آف ورلڈ میں شامل ہوجائے ، ڈاکٹرابراہیم حسین مراد حسن صہیب مراد کے بیٹے اور محترم خرم جاہ مراد کے پوتے ہیں۔ ان کے والد یو ایم ٹی جیسے پروقار تعلیمی ادارے کے بانی تھے۔ ان کا انتقال ناگہانی طورپر ایک حادثے میں ہوا۔ جس کی وجہ سے جناب ابراہیم مراد کو یونیورسٹی کا انتظام و انصرام بھی سنبھالنا پڑا۔ یہ ایک اعزاز کی بات ہے اور اتنی چھوٹی عمر میں یہ اعزاز مل جائے تو اسے اللہ کی ایک بڑی نعمت سمجھنا چاہئے۔نگران حکومت کا کوئی لمباچوڑا ایجنڈا نہیںہوتا۔ آئین کی رو سے اسے 90روز کی عبوری مدت کے اندر الیکشن منعقد کرواکر رخصت ہوجانا ہوتا ہے ۔ لیکن موجودہ نگران حکومت کے بارے میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ اس کا نگران دور ذرا طول پکڑ سکتا ہے ۔ چلئے دیکھ لیتے ہیں کہ نوجوان ٹیکنوکریٹس اور صحافی کس حد تک اپنے گورننس کے نظریات پر پورا اترتے ہیں ۔ نوجوانوں کا جذبہ تو دیکھنے کے لائق ہوتا ہے ۔ صحافیوں کی تحریروں میں ایک آئیڈیل حکومت کا فلسفہ اور نظریہ پیش کیا جاتا ہے ۔ اب ہمیں اس کا بھی تجربہ ہوجائے گا۔ کہ وہ اپنے نظریات کو کس حد تک بروئے کار لاکر اپنی مختصر حکومت کے دوران شیرشاہ سوری جیسے کارنامے انجام دے پاتے ہیں۔خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ جناب محسن نقوی جوش و جذبے اورانتظامی بصیرت سے مالا مال ہیںاور مختلف ترقیاتی منصوبوں کی جلد از جلد تعمیر و تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ مگر ٹوٹی پھوٹی لاہور قصور روڈ اورقصور دیبالپور روڈ کی مرمت و بحالی کا جو کام حمزہ شہباز اور پرویز الہٰی کے دور میں شدومد سے شروع کیا گیا تھا، وہ سننے میں آیا ہے کہ اس وقت بند پڑا ہے ۔ قصور سہجرہ روڈ اور گنڈاسنگھ والا حسین خان والا روڈ کی تعمیر کی منظوری گذشتہ دو وزرائے اعلیٰ کے دور میں دی گئی تھی، ان پر بھی تاحال کام شروع نہیں کیا جاسکا۔ میں اپنے گاﺅں فتوحی والا کے صرف ایک گرلز ہائی اسکول کی بدحالی کی طرف ماڈل کے طور پر اب تک کے چار وزرائے اعلیٰ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا رہا، مگر میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ اگر موجودہ وزیراعلیٰ قصورجیسے پسماندہ ،محرومی کاشکاراضلاع کے ان منصوبوں کی تکمیل کے سفرکاآغاز کرسکیں تو بے شک میںبھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ وہ پورے صوبے کے مسائل کی طرف دھیان دے رہے ہیں۔
صوبے بھرمیں چوری اور ڈکیتی رکنے میں نہیں آرہی۔ امن عامہ کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں میرے اپنے بیٹے کی دوکان دو مرتبہ ڈاکو لوٹ چکے ہیں ، مگر پولیس کسی ملزم کا سراغ نہیں لگاسکی۔ اس سے دیگراضلاع میں پولیس کی کارکردگی ازخود عیاں ہوجاتی ہے ۔ بہرحال میں پھر بھی پُر امید ہوں کہ صحافی وزیراعلیٰ اور صحافی وزیر اطلاعات کے دور میں راوی ہرسو چین لکھے گا۔ میں نے تو ان سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ مگر صوبے کے محروم عوام بھی چاہتے ہیں کہ یہ نوجوان دانشور اپنی صلاحیتیں آزمانے میں کامیاب وکامران ٹھہریں۔ ہمارے لئے مثال تو ریاست ِ مدینہ ہے لیکن اگر ہم قائداعظمؒ کی نظریاتی فلاحی جمہوری ریاست کا نمونہ ہی پاکستان کو بناسکیں تو دل اس پر واہ واہ کراٹھے گا۔
پنجاب میں صحافیوں اور ٹیکنوکریٹس کی نگران حکومت
Mar 09, 2023