اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملکی تاریخ میں شفاف ترین الیکشن 1970ءمیں یحیٰی خان نے کرائے تھے اور الیکشن کے نتائج کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان میں مجموعی طور پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے اکثرت حاصل کرلی تھی۔ جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ آپ اکثریت حاصل کرنے والے کو نہ صرف مبارکباد دیں بلکہ ملک کی ترقی و استحکام کے لئے اپنی جانب سے تمام ممکنہ تعاون اور تعمیری اپوزیشن کا بیان دے کر اکثریت حاصل کرنے والے کو اقتدار دیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے الیکشن نتائج تسلیم نہ کئے۔ ملک ہیجانی کیفیت کا شکار تھا تو ایئر مارشل اصغر خان مرحوم واحد سیاستدان تھے جنہوں نے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے کی بات کی لیکن انہیں ”بنگالیوں کا ایجنٹ“ قراردیا گیا۔ ہیجانی کیفیت میں صدر یحیٰی خان چٹاگانگ گئے اور شیخ مجیب سے صبح ایک ملاقات کی اور شام میں دوسری ملاقات ہوئی۔ صحافیوں نے شیخ مجیب سے پوچھا کہ آپ اقتدار میں آکر کس کوپاکستان کا صدر بنائیں گے تو انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں میں واحد شخص ایئرمارشل اصغر خان ہی تو ہیں جنہوں نے حق بات کی ہے اور میں اقتدار میں آکر انہیں ملک کا صدر بناو¿ ں گا۔
سیاستدان جنرل یحیٰی خان کو کہتے آپ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیں تو پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت ہوتی اور پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا لیکن یحیٰی خان نے واپس آکرسیاستدانوںسے ملاقات کی لیکن جمہوریت کے رائج طریقہ کار کے مطابق اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے کا ماحول نہ بن سکا اور سیاستدانوں کے غلط طرز عمل کے باعث پاکستان دولخت ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس وقت تمام سیاستدان یک زبان ہوکر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار حوالے کرنے کی بات کرتے تو کسی اور کی کوئی جرات نہیں تھی کہ وہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے نہ کرتا لیکن خود سیاستدانوں نے اپنے ذاتی اقتدار و سیاست کی خاطر ملک کو دولخت کرنا قبول کرلیا۔بہتر تو ہوتا کہ ہم اس خودغرضی کی سیاست کے نقصانات سے سبق سیکھتے اور اپنی اصلاح کرلیتے لیکن تاحال سیاستدانوں کے طرز عمل سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ ملک کی خاطر ذاتی انا و ضد قربان کرنے کو تیار ہوں۔2022ءمیں جب وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو جمہوری طرز عمل تو یہ تھا کہ آپ خوش دلی سے اسمبلی میں بیٹھ کر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور گنتی کے بعد ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرکے ملک کی خاطر تعمیری تنقید تک محدود رہ کر اسمبلی میں رہتے ہوئے حکومت کو غلط اقدامات پر ٹف ٹائم دینے کی بات کرتے۔ بہتر تو یہی تھا کہ آپ اپنے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں کا ٹیرف طے کرتے اور ملک کو معاشی مشکلات سے بچانے کے لئے ذاتی مفادات و سیاست کو پس پشت رکھ دیتے۔
لیکن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا یقین ہوتے ہی آپ نے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں کے برعکس ملکی معیشت کے مستقبل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف دیکر خود ہیرو بنا نے کی کوشش کی لیکن اس کا خمیازہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے اور ملکی معیشت سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لئے تمام تر غیر آئینی و غیر قانونی طریقے اختیار کئے گئے لیکن اکثریت کو جمہوری طریقے سے اقتدار ملا۔ پھر آپ نے نہ صرف اسمبلیوں سے باہر جانے کا اعلان کردیا بلکہ یہ تک کہا کہ اب سڑکوں پر سیاست ہوگی اور حکومت سے کوئی بات چیت اس لئے نہیں ہوگی کہ ان سے بات چیت ہماری توہین کے مترادف ہے۔ مئی میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا اور پورا ملک ہیجانی کیفیت کا شکار ہوا۔ لانگ مارچ کے دوران کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا۔
تحریک انصاف کے اپنے سینئر رہنما آپ کو اسمبلی میں واپس جانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ نے کسی کی ایک نہ سنی۔ مذاکرات کے لئے حکومت کی جانب سے پیشکش کا الٹا مطلب لیا گیا۔ آپ نے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا اور راستے میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ آپ کا خاص کرم ہے جس نے عمران خان کی جان محفوظ رکھی ورنہ خدانخواستہ پورے ملک کی کیا حالت بنادی جاتی؟ آپ کو جو ادارے اقتدار میں لائے تھے‘ آپ نے انہی کے خلاف عوام میں شدید ترین نفرت پھیلائی۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں آپ کی صوبائی حکومتیں تھیں تو آپ اپنی آئینی مدت تک ان حکومتوں کے ذریعے اتنے کام کرلیتے کہ ان دونوں صوبوں میں عوام آپ کو آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر اکثریت سے کامیاب کراتے لیکن اس معاملے پر بھی چوہدری پرویز الٰہی سمیت دیگر سینئر رہنماو¿ں کی باتوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے آپ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں توڑ دیں۔
پہلے حکومت کی جانب سے بار بار مذاکرات اور مل بیٹھ کر مسائل کے حل کی پیشکشیں ہوتی رہیں لیکن آپ نے ان کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک اور ملکی معیشت کی خاطر بیٹھنے کو جرم قرار دیا اور اداروں سے ٹکراو¿ کی پالیسی اختیار کی۔ اب آپ کی جانب سے تمام تر ہٹ دھرمی کی سیاست برداشت کرلینے کے بعد حکومت نے تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کو سنبھالنے اور سیلاب کی آفت میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے عالمی دنیا اور عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون کے لئے رابطے رکھے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لئے تاحال حکومتی ٹیم کی کوششیں جاری ہیں لیکن آپ کی جماعت کی جانب سے روزانہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔ آپ کے اس بیان سے ملک کو عالمی طور پر کتنا نقصان ہوتا ہے؟ شاید اس بات کا اندازہ آپ نہیں کرسکتے۔ اس تمام سیاسی کشمکش میں ملک میں مہنگائی ناقابل برداشت حد تک چلی گئی ہے اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے۔
اس طرز سیاست کی کوئی بھی محب وطن شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ اب جبکہ تمام تر بدترین حالات کا سامنا کرلینے کے بعد حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی جانب گامزن ہے تو آپ اداروں اور حکومت سے بات چیت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اب آصف زرداری نے عمران خان سے بات چیت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہٹ دھرمی کی سیاست نے ملکی معیشت اور عوام کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے اور ان تمام تر حالات کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کو اس بات کا قطعی ادراک نہیں کہ ہم نے سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پورا ملک منشیات فروشوں اور اسلحہ فروشوں کے سپرد کردیا تھا۔ سی پیک روکنے کے لئے بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل برسرپیکار ہیں۔ ایران اور روس سے تجارت سے باز رکھنے کے لئے عالمی طاقتیں تمام تر کوششوں میں مصروف ہیں۔ملکی معیشت ڈیفالٹ کی طرف گامزن ہے۔ ایسے حالات میں گزشتہ ایک سال کی سیاست اور ہٹ دھرمی کو دیکھا جائے تویہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سیاستدانوں نے اب تک ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ہر ایک کو اپنی ذاتی سیاست و اقتدار کا تحفظ درکار ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک چاروں جانب سے دشمنوں کی سازشوں میں گھرا ہوا ہے اور اندرون خانہ بھی ملک منشیات و اسلحہ فروش مافیا کے رحم و کرم پر ہے تو آپ نے اداروں کی ساکھ مجروح کرنے کی گھناو¿نی کوشش کرکے کس حد تک حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے؟
اب ایک بار پھر سیاستدانوں کی وجہ سے ملک میں افراتفری ہے اور کروڑوں غریب لوگ پریشان ہیں اور ملک کو اس حالت میں پہنچانے کے ذمہ دار سیاستدان ہی ہیں۔ اب بہتر یہی ہوگا کہ الیکشن اپنے آئینی وقت پر ہوں اور نئی مردم شماری کے بعد ایسے شفاف انتخابات کرائے جائیں جس کے نتائج کو ہر جماعت کھلے دل سے تسلیم کرے۔ منفی سیاست کا خاتمہ ضروری ہے۔ عمران خان سمیت ان کی جماعت کے لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ بھی ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے تعمیری سیاست کو ترجیح دے۔ملک 2022ءمیں سیلاب سے تباہ ہوا ہے اور لوگ ابھی تک پریشان ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تمام ترقیاتی کام چھوڑ کر سیلاب زدہ علاقوں پر فنڈ لگاکر زمینوں کو قابل کاشت بنائیں تاکہ خوراک میں خودکفالت کا حصول ممکن ہو اور عوام کو سستی خوراک فراہم کی جاسکے۔