کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ پاکستان کو تحقیق اور ریسرچ اسکالرز کی ضرورت ہے جو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیئے تجاویز دے سکیں۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کردہ پہلی دو روزہ گلوبل ریسرچ کانگریس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ بین الاقوامی کانگریس کی افتتاحی تقریب سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی،ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگونے بھی خطاب کیا، کانگریس میں عمان کی قابوس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر موسی سلیم موسی
الخروسی، پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر بشرا حمید، لمس یونیورسٹی لاہور کے ڈاکٹر عون رضوی سمیت مختلف یونیورسٹیز کے اسکالرز نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوے سعید غنی کا کہنا تھاکہ یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ دو سال کے دوران سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے طلبا کی تعداد میں چارسو فیصد اضافہ ہوا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طلبا اس جامعہ کے معیار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا آج دنیا بدل رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے باعث مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسان کی جگہ مشین لے رہی ہے۔مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیئے اسکالرز اور طالب علموں کو تحقیق پر توجہ دینی چاہیے۔ تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی منفرد بین الاقوامی تقریب ہو رہی ہے، جس میں بیک وقت پانچ عالمی کانفرنسز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ کریڈٹ سندھ مدرستہ لاسلام یونیورسٹی کو جاتا ہے جس کا ملک میں تحقیق کے کلچر کے فروغ میں کلیدی کردار رہا ہے۔ وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر امجد سراج نے کہا آج مصنوعی ذہانت کے موضوع پر غیرمعمولی کام کیا جارہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں انسانوں کی جگہ روبوٹ لیتے جارہے ہیں۔قدرتی آفات میں میڈیا کے کردارکے عنوان سے مذاکرے سے جامعہ پنجاب کے اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیزکی چیئرپرسن ڈاکٹربشری حمیدالرحمان، سینئرصحافیوں ریاض سہیل، عاجز جمالی اور نالیج فورم کی رہنما زینیہ شوکت نے خطاب کیا۔مذاکرے سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا حالیہ بارش و سیلاب کے دوران سیم نالے آر بی او ڈی نے سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑی تباہی پھیلائی، لیکن افسوس کے ساتھ میڈیا نے اس حقائق کو بے نقاب نہیں کیا۔ سندھ کے تین اضلاع تاحال سیلابی پانی سے ڈوبے ہوئے ہیں لیکن میڈیا کی پوری توجہ سیاست پر ہے، کیونکہ سیلاب میں گلیمر نہیں ہے، اس لیے قومی اسکرین سے بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ نجی اور سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں کا اثر کے عنوان پر پینل ڈسکشن سے خطاب ثمرین غلام اور ماہ نور نے خطاب کیا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مذاکرے سے ڈاکٹر مہناج احمد، محمد علی، شاہد امجد، پروفیسرڈاکٹر ذیشان کھتری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں شجرکاری، ماحول میں گرین گیسز کو کم کرنے سے ماحول بہتر ہوگا۔ کچرے کو جلا کر ماحول کو خراب کرنے کے بجائے کچرے سے توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشرے کی ازسر نو تشکیل کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر زبیرالدین شیخ، ڈکٹر مھمیت، ڈاکٹر صالح موسی، ڈاکٹر مظہر علی کا کہنا تھا ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ تعلیم کے ساتھ مناسب فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں خواتین کے وسائل سے متعلق مذاکرے سے نادیہ سعید کا کہنا تھا خواتین میں قیادت کی مردوں سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ کووڈ کا اقتصادی اثر کے عنوان سے مذاکرے سے ڈاکٹر ریاض ابڑو نے کہا کوووڈ نے دنیا بھر میں تباہی پھیلائی لیکن کووڈ نے ہمیں مشکل وقت میں کاروبار کرنا سکھایا، ہمیں بتایا کہ گھر سے تعلیم کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ محمد بلال نے اسٹاک ایکسچینج میں کووڈ کے اثرات پر بات کی۔ پاکستان میں مادری زبانوں سے متعلق پینل ڈسکشن سے ڈاکٹر اسد اللہ لاڑک، ڈاکٹر غلام علی برڑو، ڈاکٹر فوزیہ شمیم اور ڈاکٹر طارق حسن عمرانی نے خطاب کیا۔ مقررین کا کہنا تھا زبان کسی بھی انسان کی پہچان ہوتی ہے، اسی سے ہمارے علاقائی تعلق اور کلچر کا پتہ چلتا ہے۔