عدم ِ استحکام ، غیریقینی کی صورتحال ، پارلیمانی ہلڑبازی ، جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ۔ سزائیں۔ یہی ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ۔ پاکستان کا مستقبل ، قرض در قرض ، پرائیوٹائزیشن ، بیانیے ، وعدے اور بچے کھچے اثاثوں کی مزید فروخت۔ اقتدار ، اختیار ، جبر ، تشدد ، مہنگا?ی اور موت۔ ماضی حال مستقبل یہیں کہیں اقتدار کی بالکونیوں میں دفن ہے۔ ہماری سیاست کی روح۔ ریاست بھروسے سے بھی کچھ زیادہ کا معاملہ ہوا کرتا ہے ، ایمان ہونے کا معاملہ۔ ریاست پر افراد کا ایمان کمزور ہوجائے تو فرد سے زیادہ ریاست کو نقصان پہنچتا ہے۔ ملک کے اصل اور حقیقی وارث عوام ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عوام کو سیاسی عمل سے نکالنے اور مسلسل نکالے رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا ہے کہ ملک کا وارث کوئی نہیں رہا۔ قانون ، انصاف ، آئین سب کچھ ایکدم سے ہوائی ، محض خیالی اور زبانی جمع خرچ لگنے لگیں ہیں۔ کے پی کے میں زخم کھائے ہوئے وڈیرے کا وزیراعلیٰ بننا ، مولانا فضل الرحمٰن کا اپوزیشن میں بیٹھنا اور اچکزئی کی اسٹیبلشمینٹ مخالف تقریر ، اس پر مچھلی منڈی۔ اسمبلیاں جن حالات کی نشاندہی کر رہی ہیں ان حالات میں عوام پر کیا گزرے گی اس کا تصور تک محال ہے۔ گیس ، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جہاں پہنچ چکی ہیں ان کی مسلسل اذیت اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے تمام اگلے پچھلے حالات کے تناظر میں آنے والے دنوں کی پیش گوئی کرنا کچھ مشکل نہیں۔ وفاق اور پنجاب دونوں اسمبلیوں میں ہاہا کار کا ایسا اودھم مچے رہنے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں کہ پوری دنیا تماشا دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں داب لے گی۔ خیبر پختون خواہ اور وفاق کے درمیان رسہ کشی کا آغاز ہوچکا ہے۔ بلوچستان سے آواز بلند ہوچکی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے تیور بتا رہے ہیں کہ چین سکون سے کوسوں دور رہے گی۔ صاف لگ رہا ہے کہ جو کام باہر سے لائی گئی حکومت اور نگران حکومت سے کروائے جانے ممکن نہیں تھے یا مناسب نہیں تھے وہ اب ایک بظاہر منتخب حکومت سے کروائے جائیں گے۔ یعنی مزید مشکل فیصلے۔ یعنی ایسی وزارت ِ عظمیٰ جس کے لینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو تو مطلب ہوا بات تر نوالہ نہیں رہی۔ البتہ صوبائی حکومتوں کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کر دکھایا جائے۔ اگرچہ اتحادیوں کی وفاقی حکومت کے حالات زیادہ بْرے ہیں لیکن پنجاب میں ڈیڑھ دوسال نکال جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کا اعتماد پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ عوامی مینڈیٹ نے ان کے ایک ایک ورکر اور ایک ایک رہنما کے اندر نیا جوش اور ولولہ بھر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی سے اقتدار کی شراکت کو رد کرنے سے تحریک انصاف نے عوام کی نظروں میں ایک اور اخلاقی اور سیاسی فتح حاصل کی ہے۔ پکڑ دھکڑ اور ظلم و جبر سہہ کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے عوامی نمائندوں کی قوت ارادی اور مزاحمت کی طاقت کا اندازہ اگرچہ ابھی کسی کو نہیں لیکن آنے والا ہر دن مقتدر قوتوں کو احساس دلانے کا دن ہوگا۔ بین الاقوامی قوتوں یا پاکستانی اسٹیبلشمینٹ یا ان دونوں کے کاندھوں پر بیٹھ کے تاج و تخت کو سر پہ سجانے والوں کے معاشی فیصلوں کی زد پر براہ راست آنے والے عوام نے الیکشن میں جوابی نشانہ لگا کر اپنے ارادوں کا برملا اظہار کر دیا ہے۔
میاں محمد نواز شریف بھانپ چکے ہیں کہ وقت ، حالات اور زمانہ ان کو ایک بار پھر ایک مشکل سیاسی موڑ پر لے آیا ہے جس کے ایک طرف کانٹوں بھرا رستہ ہے اور دوسری طرف کھائی ہے۔ اس ایوان میں بیٹھ کر جہاں بطور وزیر اعظم خود ان کو بٹھانے کی امید دلا کر لایا گیا تھا وہاں کسی دوسرے کو وزیراعظم تسلیم کرکے بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی لاڈلی دختر نیک اختر کا وزیر اعلیٰ بن جانا بہت پْرمسرت ہے لیکن افراتفری اور غربت بھرے اس اقتدار کا کیا فائدہ جس میں صرف اقتدار سے زیادہ اقدار کے مسائل اور مشکلات منتقل کی گئی ہوں۔
کیا اس میں کوئی دوسری رائے ہے کہ اگر ن لیگ کے حوالے سے عوام میں کہیں کوئی پسندیدگی یا وابستگی موجود ہے تو وہ میاں نواز شریف کی ذات سے ہے یا اب جا کے کہیں محترمہ مریم نوازشریف نے اپنی محنت سے حاصل کی ہے۔ لیکن وقت کی طرف سے دوسری بار بڑی صفائی سے میاں شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا جانا چہ معنی دارد۔ عین ممکن ہے اب ہر حکومتی فیصلے پر جو میاں نوازشریف کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا ایک جملے میں معاملہ نمٹا دیا جائے گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے چاہے وہ کہیں نیچے ہی سے آیا ہو۔ پاکستان کے اندر آنے والے دنوں میں ہرطرف کوئی نہ کوئی کھچڑی ہی پکتی نظر آ رہی ہے۔ پارلیمینٹ میں ہونیوالی تقریروں میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اور کور کمانڈر کانفرنس میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے سول حکومت کو یاد دہانی ایک نئے کریک ڈائون کا پیش خیمہ لگ رہی ہے۔ یہ یقیناً ڈیفالٹ کی سولی پر لٹکے کسی ملک کے حالات نہیں لگتے۔ ملک کے اصل ایشو کے حوالے سے ہرطرف جتنی بیپروائی نظر آ رہی ہے یہ تمام سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ لگتا ہے جیسے ملکی معاشی صورتحال کا نہ کسی کو اندازہ ہے نہ فکر۔ کل ایک خاتون رو رو کر کہہ رہی تھی کہ وائی فائی مفت ملنے سے نہ چولہا جلتا ہے نہ بچوں کی فیسیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل بھی ادا نہیں کئے جاسکتے۔ جس گھر میں کھانے کو آٹا نہ ہو اس نے وائی فائی کا کیا کرنا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنے پچھلے دورحکومت میں کپڑے بیچ کے ملک و قوم کی تقدیر بدل چکے ہیں۔ اب ایسا بار بار کیا جانا تو ممکن ہی نہیں۔نہ انکے پاس مزید بیچنے کے لیے کچھ باقی بچا ہے۔ پاکستان ائیر لائنز اور دیگر بچے کھچے اثاثے اگر بک بھی گئے تو کوڑیوں سے زیادہ دام نہیں ملنے لگے۔ زیادہ سے زیادہ سابقہ اور موجودہ چیئرمین سینٹ کی تنخواہ اور دیگر سہولتیں ہی بمشکل پوری ہونگی۔ بیرونی انوسٹمنٹ کی توقع بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ کرائسس کا فائدہ اٹھا کر اثاثے خریدنے والے تو مِل ہی جائیں گے لیکن حقیقی بزنس انویسٹر سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں کبھی بھی پیسہ نہیں لگاتا۔ ملک کا اصلی منظرنامہ تو یہی ہے کوئی جتنی بھی آنکھیں چرا لے حالات بالکل اچھے نہیں ہیں۔
کہہ رہے ہیں اور ہی کچھ حکمراں
شہر کی اپنی کہانی اور ہے
کہہ رہے ہیں اور ہی کچھ حکمراں
Mar 09, 2024