شیری رحمان اور نیر بخاری نے پارٹی سے نکلوایا سینٹر بہرا مندتنگی۔
آپ جناب تنگی صاحب نے کوئی بڑا کارنامہ ہی انجام دیا ہوگا کہ پارٹی سے نکال دیا گیا۔اسی بیان میں ایک طرف شیری رحمان اور نیر بخاری پر تنقید کر رہے ہیں اور دوسری طرف بلاول بھٹو اور زرداری کو بھی نشانہ بنایا ہے۔کہتے ہیں کہ پارٹی اب بلاول اور آصف زرداری کی ملکیت ہو گئی ہے(پہلے انکی ملکیت تھی؟) مگر صدارت کے لیے ووٹ میں زرداری صاحب کو ہی دوں گا۔دوسری جانب آپ ووٹ دے بھی نہیں سکتے۔ایسا کریں گے تو ڈیفیکشن کلاز لگے گی اور سینٹری شف شف۔پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر بھی ہوا کرتے تھے انہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف بیان دیا تو پارٹی کی طرف سے استعفے کا کہہ دیا گیا،انہوں نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تھا۔سینیٹری جن کی امانت تھی ان کو لوٹا دی۔گزشتہ دنوں تنگی صاحب نے سینٹ میں سوشل میڈیا پر پابندی کی قرارداد پیش کی تھی،اور تاثر دیا تھا کہ یہ قرارداد پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر شازیہ مری کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان صاحب کو تو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔پارٹی سے نکالنے کی وجہ یہ تھی کہ آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل سینٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد آئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بقول اس قرارداد پر موصوف خاموش رہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پیپلز پارٹی بھی انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے سینٹر افنان اللہ خان نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں مگر کورم کی نشاندہی نہیں کی مبادا قرارداد منظور ہونے سے رہ جائے۔تنگی کی طرف سے نہ صرف قرارداد کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ کورم کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی تھی۔یہ امر بھی حیران کن ہے کہ تنگی کے سینٹ میں رویے سے تنگ آ کر انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا مگر ان سے استعفیٰ نہیں مانگا گیا۔
٭…٭…٭
عراقی عدالت نے وزیرتجارت کی برطرفی کامطالبہ کرنے والیرکن پارلیمنٹ کو قید کی سزاسنادی۔
ہمارے ہاں ایسے الزامات پر سزائیں ہونے لگیں تو آدھے سے زیادہ پارلیمنٹیرین اندر ہوں یا اتنے ہی وزیر مشیرعہدوں سے برطرف۔اپوزیشن کی نظر میں سارے نہیں تو آدھے سے زیادہ وزیر مشیر معاونین خصوصی کرپٹ اور کرپشن میں ملوث ضرور ہوتے ہیں۔ویسے سچ میں کتنے ہوں گے؟ یہ ہر قاری کے سامنے سوال ہے۔اپوزیشن والے ان پر کرپشن کے الزامات لگانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔پاکستان کی سب سے ایماندار اور دیانت دار کابینہ وہ ہے جو آج9 مارچ کام کر رہی ہے۔ اس کی دیانت داری کی گواہی دی جا سکتی ہے۔کیونکہ آج کوئی کیبنٹ ہے ہی نہیں۔مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کی حمایت سے حکومت بنا رہی ہے جس میں کوئی بھی پیپلز پارٹی کا وزیر نہیں ہوگا۔شہباز شریف وزراء کی تقرری میں دو چار روزمزید لیں گے۔نگران وزیر گھروں کو جا چکے ہیں شہباز شریف کے وزیر ابھی گھروں سے آئے نہیں،کون نہیں بنے گا وزیر یہ بھی کئی کو پتہ نہیں۔ لہٰذا جو ہے ہی نہیں اس کی دیانت کی گواہی دینے میں کیا حرج ہے۔اب تھوڑا دیکھتے ہیں کہ عراقی پارلیمنٹیرین کو سزا جائز ہوئی ہے یا ناجائز؟گذشتہ سال ستمبر میں، ہادی السلامی نے وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وزیر تجارت کو برطرف کریں کیونکہ انہوں نے عوامی فنڈز میں خورد برد کی ہے۔وزارت تجارت نے جواب میں السلامی کے خلاف عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے وزیر کے خلاف اپنے الزام میں جعلی دستاویزات پیش کی ہیں۔عدالت نے وزارت تجارت کا موقف درست مانتے ہوئے السلامی صاحب کو سزا سنا دی۔جھوٹے الزامات کا یہی جواب بلکہ انجام ہونا چاہیے اور ایسے ہی بروقت بھی۔ہمارے ہاں الزامات لگتے ہیں۔10، 10 ارب ہر جانے کے دعوے ہوتے ہیں مگر فیصلے ندارد جو الزام تراشوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔
٭…٭…٭
دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم پانی کی بات کر رہے ہیں مصطفی کمال۔
جب بھی کرتے ہیں مصطفی کمال، کمال کرتے ہیں۔انہوں نے کبھی الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے مقابلے میں اپنی پارٹی بھی بنائی تھی وہ بھی ان کا کمال تھا اور پارٹی بھی کمال کی پارٹی تھی یعنی مصطفی کمال کی، پارٹی اب کہاں ہے اس کا نہ کسی اور کو پتہ ہے اور نہ کمال کو پتہ ہے۔ایک کمال تو انہوں نے کل ہی کیا ہے جب انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بریفنگ دیتے ہوئے مسلم لیگ نون کی طرف سے کی گئی ان کی پذیرائی بروزن ٹھکائی کا دعوی نما اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون سے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا 100 فیصد مینڈیٹ جعلی ہے۔اور پھر انہوں نے اپنی اس گفتگو کی تصدیق بھی کر دی۔جن کو ان کے مینڈیٹ کے بارے میں نہیں پتہ تھا ان کو بھی پتہ چل گیا۔وہ کہتے ہیں دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم پانی کی بات کر رہے ہیں۔جہاں جہاں انسان ہوگا وہاں پانی کی ضرورت ہوگی۔پانی کی ضرورت ہوگی تو پانی پر بات بھی ہوگی۔کراچی میں تو ویسے بھی جب بارش زیادہ ہوتا ہے تو پانی زیادہ آتا ہے۔پانی زیادہ آتا ہے تو پھر گارا اور کھوبہ بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔ہم نے تو جب بھی سنا کراچی میں پانی کے بحران کے بارے میں ہی سنا ہے۔کراچی میں پینے کا پانی دور دراز سے نہر کے ذریعے آتا ہے۔پاکستان کو پالنے کے دعوے کرنے والے کراچی والے اپنے پینے کیپانی میں بھی ابھی تک خود کفیل نہیں ہو سکے۔سمندر کے کنارے بیٹھے ہیں دنیا چاند تک پہنچ گئی۔یہ پینے کے پانی کا بندوبست نہ کر سکے۔بارش کا پانی ہو تو سنبھالا نہیں جاتا۔جب میئر تھے تو مصطفی کمال کوئی ایسا کمال کر جاتے کہ کراچی میں پینے کے پانی کی قلت نہ ہوتی اور بارش کا پانی تباہی نہ پھیلا رہا ہوتا۔
٭…٭…٭
راجہ پرویز اشرف کیخلاف رینٹل پاور ریفرنس۔ 29 اپریل کو دلائل طلب۔
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والے بہت سے نوجوانوں کو نہیں پتہ ہوگا کہ رینٹل پاور ہے کیا۔ایک ریفرنس دو ریفرنس یا اس سے زیادہ رینٹل پاور کے حوالے سے ریفرنس یہ تو ایک الگ سٹوری ہے۔2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ "نیزے "پر ہوا کرتی تھی۔عوام کو وافر بجلی فراہم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کو راجہ پرویز اشرف کی صورت میں آئن سٹائن نظر آیا۔انہیں بجلی کا وزیر بنادیا گیا۔انہوں نے پاکستان میں کرائے کے بجلی گھر لانے کا منصوبہ پہلی بار متعارف کروایا۔اس سے پہلے راجہ پرویز اشرف کی شہرت "راجہ جینٹل 'کی تھی۔رینٹل پاور پلانٹ پاکستان میں آگئے لگے یا نہیں لگے کہاں کہاں لگے ؟؟ادائیگیاں ضرور ہو گئیں۔ایک تو ایسا پلانٹ بھی نصب ہوا کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نوٹس لیتے ہوئے ایک درجن ارب روپے اس کی ہوائی تنصیب کی مد میں ادا کیے گئے، واپس کروائے۔ کرائے کے بجلی گھر پانچ سال کی مدت کے لیے حاصل کیے گئے تھے اس کے بعد یہ کہاں گئے ؟اس بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے۔معلوم ہے تو اتنا کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں سے گئی تو لوڈ شیڈنگ سوا نیزے پر تھی۔راجہ صاحب انہی دنوں پاکستان کے وزیراعظم بنا دیئے گئے تھے۔وزیر بجلی برقرار رہتے تو لوڈ شیڈنگ ہو سکتا ہے ڈیڑھ نیزے پر پہنچا جاتے۔