ارشد ندیم کی اکلوتی جیولین کھیلوں کے نظام پر سوالیہ نشان

محمد معین 
پیرس اولمپکس میں پاکستان کے لیے میڈل جیتنے کی اکلوتی امید ارشد ندیم کی اکلوتی جیولین جواب دے گئی ہے۔ یہ صورت حال ملک میں کھیلوں کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کھیل کی وزارت اور پاکستان سپورٹس بورڈ سمیت اتھلیٹکس فیڈریشن کے عہدیداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جو سات آٹھ برسوں میں ایک ہی جیولین استعمال کرتا آیا ہو اس کی کامیابیوں کا کریڈٹ لینے کے لیے بہت سے لوگ سامنے آتے ہیں لیکن کریڈٹ لینے کی اس دوڑ میں شاید کسی کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت نہیں تھا کہ کیا ارشد ندیم کے پاس کھیل کی بنیادی سہولیات بھی ہیں یا نہیں، پچیس کروڑ انسانوں کے ملک میں ایک اکلوتا کھلاڑی ہے جس سے ہم پیرس میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں میڈل کی توقع کر رہے ہیں وہ کھلاڑی ماضی قریب میں عالمی سطح کے مختلف مقابلوں میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک و قوم کا نام روشن کر رہا ہے، مخالف کھلاڑیوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے یہاں وہ اپنی جیولین کے ہاتھوں پریشان ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے اپنا یہ دکھ دنیا کو بتانا پڑا ہے۔ بھارتی جیولین تھرور نیرج چوپڑا کے 177 جیولین ہیں اور بھارتی حکومت ان پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے۔ ارشد ندیم کا مقابلہ عالمی سطح پر ایسے کھلاڑیوں سے ہے جن کے پاس مواقع اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کیا وزیراعظم میاں شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو ذاتی طور پر ارشد ندیم کا یہ مسئلہ حل نہیں کرنا چاہیے۔ ارشد ندیم جہاں بھی کھیلے گا ملک کا نام روشن کرے گا۔ ارشد ندیم کے پاس ٹریننگ کی سہولیات بھی کم ہیں، نہ اس کے پاس سامان ہوتا ہے نہ ٹریننگ کی جگہ، کبھی کہیں تو کبھی کہیں ٹریننگ کے لیے جگہ جگہ پھرنا پڑتا ہے ان حالات میں یکسوئی کے ساتھ عالمی مقابلوں کی تیاری کیسے ممکن ہے۔
ارشد ندیم کہتے ہیں ورلڈ لیول کی جیولین سات سے آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور عالمی مقابلوں کے لیے کم از کم پانچ یا چھ جیولین لازمی ہیں، لوکل جیولین ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں ملتی ہے لیکن یہ ٹریننگ کے لیے بہت اچھی نہیں ہیں۔ میری اور نیرج چوپڑا کی ٹریننگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گذشتہ ماہ ہونے والی سرجری کے بعد ری ہیب کے ساتھ ٹریننگ شروع کر دی ہے۔ میرا ہدف پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...