وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں 

Mar 09, 2024

طارق محمود مرزا

آسٹریلیا میں پڑھنے کے خواہش مند پاکستانی طالب علموں کے ویزے کی درخواستیں پہلے کبھی اس تعداد میں رد نہیں کی گئیں جتنی پچھلے کچھ عرصے میں ہو رہی ہیں۔ یہی صورتحال دوسرے اقسام کے ویزے کی بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی طلبا اور دیگر شہریوں کے ویزے منظور ہونے کی مدت میں کمی آئی ہے اور کامیاب درخواستوں کی شرح بھی بڑھی ہے دیگر شعبہ جات میں بھی پاکستان کی تنزلی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان سے تجارت میں کمی آرہی ہے۔ کسی دور میں آسٹریلوی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات جیسے چادریں، تولیے، ملبوسات،چاول اور دیگر کئی اشیا نظر آتی تھیں۔اب ان کی جگہ بھارت اور بنگلہ دیش کی مصنوعات نے لے لی ہے۔ بھارت تو اس معاملے میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ آسٹریلیا اور دیگر کئی ملک ان کے ساتھ دوستی اور تجارتی تعلقات قائم رکھنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت میں تیار ہونے والی اشیا کے حجم کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کا آسٹریلیا میں استعمال ہونے والی مونو ریل کے ڈبے بھی ہندوستان سے بن کر آتے ہیں۔ جبکہ پاکستان ریل میں استعمال ہونے والے چھوٹے چھوٹے پرزے بھی باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ہمارے ٹریڈ کمشنرز آم منگوا کر خوش ہو لیتے ہیں۔جہاں پاکستان کی تجارت میں واضح کمی ہوئی ہے وہاں اس کے انتظامی اور سرکاری اخراجات میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کی آؤٹ پٹ کہیں نظر نہیں آتی۔نہ کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ہمارے سفارت کاروں کے پاس پاکستان کے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال کے لیے منعقدہ سیمینار میں شرکت کا بھی وقت نہیں ہے جب کہ اچھے وقتوں میں یہ کام وہ خود کرتے تھے۔اسی سے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔بقیہ سرکاری محکموں کا بھی یہی حال ہے۔بین الاقوامی ایئر لائنز پاکستان سے پروازیں شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور نہ ان سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری حکومتیں اپنے پاوں جمانے ، اپنی حکومت اورجماعت کو مضبوط کرنے اور مخالفین سے نمٹنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس ایسے'' فضول'' کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ جبکہ پڑوسی ملک بھارت سے بے شمار فضائی کمپنیوں کی سستی پروازیں آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کے لیے دستیاب ہیں۔دو برس قبل پی آئی اے نے آسٹریلیا سے براہ راست پرواز شروع کرنے کا اعلان کیا اور ٹکٹ بھی بک کر لیے لیکن نہ تو ان کو آسٹریلین حکومت سے اجازت ملی اور نہ ہماری حکومت نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی لی۔یوں آسٹریلیا میں مقیم تقریباً ایک لاکھ پاکستانی ایک بہت بڑی سہولت سے محروم رہ گئے۔ غیر ملکی ایر لائنوں پر سفر کرنے میں دوگنا وقت اور پیسہ لگتا ہے۔ مثلاً قطر ایر لائن یا امارات ایر لائن پر سفر کرنے کی صورت میں پاکستان کے اْوپر سے گزر کر پندرہ سولہ گھنٹوں میں قطر یا دبئی جانا پڑتا ہے اور پھر اگلی فلائٹ سے پاکستان جاتے ہیں جس میں بارہ سے لے کر چوبیس اضافی گھنٹے لگ جاتے ہیں جبکہ آسٹریلیا سے بارہ گھنٹوں میں براہ راست پاکستان پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ سہولت ہمارے لیے خواب جیسی ہے جو شاید ہی کبھی شرمندہ تعبیر ہو سکے کیونکہ ہم ناتواں کاندھوں پر سوار ہیں۔ اسی طرح پاکستان سے کوئی چیز منگوانی یا بھیجنی ہو تو اس کے اخراجات بھی دوسرے ملکوں سے زیادہ ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر غیر ملکی تو در کنار خود پاکستانی کاروبار کے لیے چین، کوریا جاپان یا کسی اور ملک کا تو رخ کرتے ہیں لیکن پاکستان سے یہ تجارت نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے پچھلے 30 سال سے میں نے یہ سلسلہ بد سے بدتر ہوتا ہوا دیکھا ہے۔ پندرہ بیس سال قبل شپنگ کمپنیاں پاکستان سے سامان لاتی اور لے جاتی تھیں جو سستا اور کاروباری لحاظ سے منافع بخش تھا لیکن اب حالت یہ ہے کہ بین الاقوامی کوریئر کے علاوہ ترسیل کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اور یہ کوریئر کمپنیاں اتنی مہنگی ہیں کہ وہ سامان سو گنا مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ڈی ایچ ایل سے 100 کتابیں منگوائیں جس کا تین لاکھ روپیہ کرایہ ادا کیا۔  اتنی کتابیں ایک دو دہائی قبل بحری جہاز پر ایک دو ہزار روپے میں بھی آجاتی تھیں۔جب کسی ملک میں تنزلی آتی ہے تو وہ ہر شعبے میں آتی ہے۔ جب ہم عروج پر تھے تو ہماری فضائی کمپنی، ہماری سٹیل مل، کرکٹ، ہاکی، سکوائش،حتی کہ ہمارے پانچ سالہ منصوبے پوری دنیا کے لیے نمونہ تھے لیکن آج ہم دنیا بھر میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ ابھی حالیہ الیکشن میں جو ڈرامہ رچایا گیا اور ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنا کر قوم پر مسلط کیا گیا اس کا تماشا پوری دْنیا نے دیکھا اور اس جگ ہنسائی کا رد عمل ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ لوگ ہماری جمہوریت پر ہنستے ہیں ہماری معیشت پر طنز کرتے ہیں ہمارے الیکشن کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جسے سن کر دل دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔ مگر ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔بلکہ سوال کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔اپنے ادارے ، اپنی جماعتیں، اپنی حکومتیں کس سے گلہ کریں۔اپنے قومی اداروں کی بے تو قیری دیکھ کر مزید دل کڑھتا ہے۔ پاکستانی روپیہ اتنا بے قدر ہو چکا ہے کہ بیرون ملک تبدیل کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا توامریکن ڈالر دو روپے کا تھا۔ستر اور اسی کی دہائی میں سالہا سال تک دس روپے کا ڈالر تھا۔اس دور میں اگر کسی کے پاس ہزار ڈالر ہو تو وہ ورلڈ ٹور پر جا سکتا تھا۔بیشتر ملکوں میں پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ویزے کی ضرورت نہیں تھی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہزاروں پاکستانی بغیر ویزے کے یورپ گئے اور سیٹ ہوئے۔وہ بھی دور تھا اور یہ بھی دور ہے جب ہمارے طالب علموں کو بھی ویزہ نہیں ملتا۔ کاش ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ذاتی اور گروہی مفاد سے بالا تر ہو کر ملک اور عوام کے بارے میں سوچیں۔نوّے سے تباہی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ابھی تک رْکا نہیں۔ ہمارا بال بال قرضے میں جکڑ گیا۔ عوام کا جینا دوبھر ہو گیا۔ غیر ملکی مداخلت  بڑھ رہی ہے اورہماری آزادی محدود سے محدود ہو رہی ہے۔پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے اور بین الاقوامی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کے بجائے ہم نے اپنی ہی عوام کو نشانہ ستم بنا لیا۔ نہ تو ہماری سیاسی اور سماجی تنظیمیں آزادی سے کام کر سکتی ہیں اور نہ میڈیا آزاد ہے۔ انگریز کو گئے ستتر برس ہو گئے۔ ابھی تک نہ تو ہمیں مکمل آزادی ملی ہے نہ اسلامی نظام نافذ ہوا۔ نہ غربت و افلاس سے جان چھوٹی ہے نہ وڈیرہ شاہی سے۔ غریب غریب تر ، بے بس اور مقہور ہوتا جا رہا ہے اور حکمران طبقہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ انصاف و قانون سے ماورا، پیدائشی حکمران ہیں۔ لگتا ہے وہ کسی اور دنیا سے اْترے ہیں۔ یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے جس کا خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے رات دن ایک کر کے شرمندہ تعبیر کیا تھا۔ فیض یاد آگئے
 یہ داغ داغ اْجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

مزیدخبریں