سات اور آٹھ مئی کے اخبارات اور مختلف ٹیلی ویژن چینلز میں جو سوالات اور پاکستان کے بدخواہوں کی جانب سے جن ممکنہ خدشات اور اقدامات کا نقشہ ابھرتا ہے جسے عسکری اصطلاحات میں Hypothesis کہتے ہیں۔ ان کا نہ صرف تفصیلی جائزہ لینا بلکہ ہر ایک ہائی پوتھیس کا توڑ یا جوابی حکمت عملی اختیار کرنا سیاسی اورعسکری قیادت کی ذمہ داریوں کا اولین تقاضا ہے اس سلسلہ میں دشمن کی طرف سے کسی ممکنہ اقدامات خواہ بظاہر وہ کتنا ہی نہ ممکن یا نا قابل عمل نظر آتا ہو رد کرنا حماقت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی کلاسک مثال دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر فرانس میں اتحادی فوجوں کے کمانڈر ان چیف کی طرف سے سرزد ہوئی تھی جب اس نے فرانس پر جرمن ٹینک دستوں کے آرڈین کے جنگلات میں سے گزر کر پیرس کے شمال سے نار منڈی کے ساحل تک یلغار کے Hypothesis کو ان تاریخی الفاظ سے رد کر دیا تھا Hyposthesis Ardeens eliminate لیکن جرمن ٹینک دستے Ardeens کے جنگلات میں سے ہی گزر کر فرانس پر حملہ آور ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے برق رفتاری سے نارمنڈی کے ساحل تک پیش قدمی کر کے پوری دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ پورا فرانس جرمن فوج کی یلغار سے تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ آیئے نہایت مختصر الفاظ میں حکومت اور حکومت سے باہر قائدین سے کچھ سوال کرتے ہیں۔
٭.... ہفتہ کے روز پاک فضائیہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران ریڈارز کے بندش کی خبروں کی تردید کر دی ہے۔ پاک فضائیہ کے ترجمان کے مطابق دنیا بھر میں فضائی حدود کی نگرانی کیلئے دو قسم کے ریڈارز استعمال ہوتے ہیں۔ ایک ہائی لیول اور دوسرا لو لیول۔ پاکستان کے پاس دونوں قسم کے ریڈارز مشرقی اور مغربی سرحد پر ہمہ وقت نگرانی کا کام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکی ہیلی کاپٹروں کے ایبٹ آباد پر حملہ کی رات ہمارے ریڈارز ہائی لیول اور لو لیول دونوں فنکشنل تھے تو حملہ آور ہیلی کاپٹر بچ کر کیسے نکل گئے؟
٭.... واشنگٹن سے این این آئی کی خبر ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے اسامہ بن لادن سے رابطہ کرنے والے آئی ایس آئی اہلکاروں کے ناموں کی فہرست طلب کر لی ہے۔ کیا امریکی انتظامیہ پاکستان کے طول عرض میں پھیلے ہوئے اپنے ہزاروں جاسوسی میں ملوث اہلکاروں کے ناموں کی فہرست حکومت پاکستان کو مہیا کرنے پر تیار ہے؟ ایسی تمام فہرستیں دو طرفہ برابری کی سطح پر مہیا کرنا بین الاقوامی اصولوں کا تقاضا ہے سوال اٹھایا گیا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے یکطرفہ طور پر کیا یہ مطالبہ بین الاقوامی سفارتی اصولوں اور روایات کے منافی نہیں ہے۔
٭.... کہنے کو تو ابھی بہت سے سوال باقی ہیں لیکن سب سوالوں کی ماں یہ سوال ہے کہ پاکستان کی طرف سے بار بار احتجاج پارلیمنٹ کی طرف سے قراردادوں اور عسکری قیادت کی طرف سے Enough is Enough کے باوجود ڈرون حملوں کی جارحانہ کارروائیاں بدستور جاری ہیں جس کی تازہ ترین مثال جمعہ کے روز شمالی وزیرستان پر ڈرون حملہ ہے۔ اگرچہ اس ڈرون حملہ پر سیاسی اور عسکری قیادت کا فوری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن پاکستان کی خاموشی سطح کے نیچے اُبلتے ہوئے طوفان کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان نے صبر و تحمل کا مثالی کردار ادا کیا ہے تاکہ کسی تصادم سے پورے خطے بلکہ عالمی سطح پر امن کی فضاءخطرات سے دوچار نہ ہوجائے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کیا مغربی طاقتیں پاکستان اور ملت اسلامیہ کو تیسری جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں؟ لیکن اس سوال کا جواب عالمی طاقتوں اور دنیا کی سول سپر پاور کے ہاتھ میں ہے۔ خدا نہ کرے کہ دنیا اس ہولناک صورتحال سے دوچار ہو کر تباہی کے راستہ پر گامزن ہو۔
٭.... ہفتہ کے روز پاک فضائیہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران ریڈارز کے بندش کی خبروں کی تردید کر دی ہے۔ پاک فضائیہ کے ترجمان کے مطابق دنیا بھر میں فضائی حدود کی نگرانی کیلئے دو قسم کے ریڈارز استعمال ہوتے ہیں۔ ایک ہائی لیول اور دوسرا لو لیول۔ پاکستان کے پاس دونوں قسم کے ریڈارز مشرقی اور مغربی سرحد پر ہمہ وقت نگرانی کا کام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکی ہیلی کاپٹروں کے ایبٹ آباد پر حملہ کی رات ہمارے ریڈارز ہائی لیول اور لو لیول دونوں فنکشنل تھے تو حملہ آور ہیلی کاپٹر بچ کر کیسے نکل گئے؟
٭.... واشنگٹن سے این این آئی کی خبر ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے اسامہ بن لادن سے رابطہ کرنے والے آئی ایس آئی اہلکاروں کے ناموں کی فہرست طلب کر لی ہے۔ کیا امریکی انتظامیہ پاکستان کے طول عرض میں پھیلے ہوئے اپنے ہزاروں جاسوسی میں ملوث اہلکاروں کے ناموں کی فہرست حکومت پاکستان کو مہیا کرنے پر تیار ہے؟ ایسی تمام فہرستیں دو طرفہ برابری کی سطح پر مہیا کرنا بین الاقوامی اصولوں کا تقاضا ہے سوال اٹھایا گیا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے یکطرفہ طور پر کیا یہ مطالبہ بین الاقوامی سفارتی اصولوں اور روایات کے منافی نہیں ہے۔
٭.... کہنے کو تو ابھی بہت سے سوال باقی ہیں لیکن سب سوالوں کی ماں یہ سوال ہے کہ پاکستان کی طرف سے بار بار احتجاج پارلیمنٹ کی طرف سے قراردادوں اور عسکری قیادت کی طرف سے Enough is Enough کے باوجود ڈرون حملوں کی جارحانہ کارروائیاں بدستور جاری ہیں جس کی تازہ ترین مثال جمعہ کے روز شمالی وزیرستان پر ڈرون حملہ ہے۔ اگرچہ اس ڈرون حملہ پر سیاسی اور عسکری قیادت کا فوری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن پاکستان کی خاموشی سطح کے نیچے اُبلتے ہوئے طوفان کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان نے صبر و تحمل کا مثالی کردار ادا کیا ہے تاکہ کسی تصادم سے پورے خطے بلکہ عالمی سطح پر امن کی فضاءخطرات سے دوچار نہ ہوجائے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کیا مغربی طاقتیں پاکستان اور ملت اسلامیہ کو تیسری جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں؟ لیکن اس سوال کا جواب عالمی طاقتوں اور دنیا کی سول سپر پاور کے ہاتھ میں ہے۔ خدا نہ کرے کہ دنیا اس ہولناک صورتحال سے دوچار ہو کر تباہی کے راستہ پر گامزن ہو۔