چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب خواجہ حارث نے تھانہ اچھرہ کا مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جس کا بغور جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آبزرویشن دی کہ ریکارڈ کے مطابق انیس سو پچھتر میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا اور ہر پہلو سے تفتیش کی گئی تاہم ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف شواہد نہیں ملے تھے ۔ہم اجلت سے کام لینے کے بجائے کیس کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے ۔ حکومتی وکیل ڈاکٹر بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف کیس کے تمام مراحل میں ناانصافی ہوئی اورنہ صرف جج بلکہ وکیل بھی دباؤ کا شکار تھے ۔عدالتی معاون عبدالحفیظ پیر زادہ نے رائے دی کہ ناانصافی کے خاتمے کے لیے عدالت کیس پر دوبارہ نظرثانی کرے جیسا کہ اکتیس جولائی دو ہزار دو کے فیصلے میں تین نومبر دو ہزار سات کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا ۔جس پرچیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ اکتیس جولائی دوہزارنو کا فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد فیصلہ تھا کیونکہ اس فیصلے میں عدالت نے تین نومبر دوہزار نو کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا ،اس سے پہلے عدالتیںامریت کا ساتھ دیتی رہی لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بارآمر کے اقدامات کورد کیا گیا ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی