انتخابی سیاست کا جان جوکھوں کا سفر

انتخابی سیاست کا جان جوکھوں کا سفر

شہزاد چغتائی
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور سندھ میں اس بار عام انتخابات خوف و ہراس کی فضاءمیں ہو رہے ہیں یہ خدشات بدستور موجود ہیں کہ امن وامان کی صورتحال کسی بھی وقت مخدوش ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں کم از کم کراچی میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں یا بائیکاٹ ہو سکتا ہے۔ بم دھماکو ںکے بعد کراچی میں نوگو ایریا کی تعداد بڑھ گئی ہے کراچی کی ساحلی پٹی سمیت جن علاقوں کو حساس قرار دیا گیا ہے وہاں کوئی جانے کےلئے تیار نہیں۔ جن علاقوں میں دھماکے ہوتے ہیں وہاں اتنے سخت ترین حفاظتی اقدامات کئے جارہے ہیں کہ پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ انتخابات سے دو دن قبل شہریوں کو یقین نہیں کہ الیکشن ہوں گے۔ لوگوں کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو اپنے حلقے سے کھڑے ہونے والے امیدوار کا نام معلوم نہیں۔ نصف سے زائد شہر میں امیدواروں نے بینر اور پوسٹر تک نہیں لگائے‘ کراچی کے در و دیوار امیدواروں کے ناموں اور انتخابی نعروں کو ترس رہے ہیں۔
کراچی سمیت ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر عروس البلاد کے انتخابی منظر نامہ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس دوران کراچی اور حیدر آباد کے انتخابات پر بائیکاٹ کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے جو کہ الیکشن کے دن تک موجود رہے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آنے والے دنوں میں کسی بڑے سانحہ کے نتیجے میں انتخابات سبوتاژ ہو سکتے ہیں۔ انتخابات سرکس کی رسی پر کھڑے ہیں۔
حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے انتخابی دفاتر پر ہونے والے بم دھماکوں میں کالعدم لشکر جھنگوی ملوث ہے جس کے پانچ گروپ کام کر رہے ہیں جن میں نعیم بخاری گروپ شامل ہےں۔ یہ گروپ ایک عرصہ سے سرگرم ہے اور پولیس و رینجرز کو نشانہ بنا رہا ہے۔۔ لشکر جھنگوی کا الحاق تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔ عزیز آباد میں بم دھماکوں کے بعد ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر جانے والے سیل کر دئیے گئے۔ حساس اداروں کا خیال ہے کہ کراچی میں شدت پسند گروپوں نے ایم کیو ایم کے برطرف کارکنوں سے ساتھ مل کر نیا گروپ بنا لیا ہے۔ ایم کیو ایم کے کئی درجن برطرف کارکن لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو کہ ایم کیوایم کو ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ نائن زیرو کے اطراف ہونے والے بم دھماکوں کا تشویشناک یہ پہلو تھا کہ دہشت گر د سخت ترین سیکورٹی کا حصار توڑ کر سخت پیغام دینے میں کامیاب ہو گئے۔
کراچی کے دھماکے اچانک نہیں ہوئے سیکورٹی اداروں کے پاس بم دھماکوں کو قبل از وقت اطلاعات موجود تھیں جس کی تصدیق وزیر داخلہ نے کی۔ دہشت گرد کس قدر دیدہ دلیرہ تھے انہوں نے رینجرز کو بھی نشانہ بنایا۔ دوسرا دھماکہ رینجرز کی گاڑی کے قریب ہوا۔ عزیز آ باد میں دھماکے سے شدت پسندوں نے یہ پیغام دیدیا کہ وہ جہاں چاہے دھماکہ کر سکتے ہیں اور پاکستان میں کوئی جگہ ان کی دسترس سے محفوظ نہیں ہے۔ عزیز آباد کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا ہے وہاں عام دنوں میں بہت زیادہ سخت حفاظتی انتظامات موجود ہوتے ہیں لیکن ہفتہ کو پولیس اور رینجرز کے ساتھ پہلی بار ریپڈ رسپانس فورس بھی عزیز آباد میں چیکنگ پر مامور تھی اور آر آر ایف کے چاق و چوبند دستوں کو دیکھ کر علاقے کے لوگوں کو حیرت بھی ہوئی تھی کہ آخر اس قدر سیکورٹی کی کیا وجوہات ہیں۔ ریپڈ رسپانس فورس آنے جانے والی گاڑیوں کو چیکنگ میں مصروف تھی کہ پہلے دھماکہ ہوا اور جب لوگ امدادی کارروائیوں کےلئے آگے بڑھے تو دوسرا دھماکہ کیا گیا جس کی زد میں میڈیا کے افراد بھی آ گئے۔
وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب خان کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے بروقت کراچی آکر انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ناکام بنا دی۔ وزیر داخلہ ملک حبیب الرحمن ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے بم دھماکوں کے بعد فوری طور پر کراچی آئے تھے کیونکہ ایم کیوایم نے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی۔ ادھر الیکشن سے قبل کراچی میں بم دھماکوں قتل وغارت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ 11مئی کو شہری ووٹ کےسے ڈالیں گے دھماکو ںکے بعد ووٹر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ وزیر داخلہ ملک حبیب الرحمن کی کراچی آمد اور فول پروف سیکورٹی انتظامات کے منظوری کے باوجود کراچی میں بدامنی کے واقعات ہوئے ہیں۔ جوں جوں الیکشن نزدیک آ رہے ہیں کراچی سے بلوچستان تک تشدد بڑھ رہا ہے اب بلوچستان لبریشن آرمی میدان میں کود گئی ہے اس نے 5 مئی سے 11 مئی تک ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے ۔ بلوچ لبریشن آرمی کی اس دھمکی سے کراچی کے الیکشن بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں لاکھوں بلوچ آباد آباد ہیں جو کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک درجن سے نشستوں پر بطور امیدوار انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ کراچی میں بی ایل اے کا نیٹ ورک موجود ہے جو کہ حب سے چلایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل کراچی میں طالبان نے شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ووٹ ڈالنے نہ نکلیں اور گھروں میں رہیں۔ وےسے تو کراچی سمیت تین صوبوں میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن حکومت 11 مئی کو حالات کو کنٹرول میں رکھنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے ۔
کراچی میں یہ اطلاعات ہیں کہ ملک کے نئے وزیراعظم نوازشریف ہوں گے‘ مخلوط حکومت بنے گی‘ عمران خان اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق نوازشریف اور آصف زرداری میں سیاسی ہم آہنگی موجود ہے اور اس مفاہمت کے تحت ہی صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) کےلئے کھلا میدان چھوڑا ہے اور پیپلز پارٹی انتخابی مہم نہیں چلا رہی۔ پیپلز پارٹی کے حلقو ںکو یقین ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو آئندہ مدت کےلئے منتخب کر لیا جائےگا۔ پیپلز پارٹی آئندہ مخلوط حکومت کا حصہ ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی باری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سال مکمل ہونے کا کریڈٹ بھی محمد نوازشریف کو جاتا ہے۔ سیاسی حلقو ں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم اور اے این پی خسارے میں رہے گی۔




 

ای پیپر دی نیشن