پاکستان کے الیکشن سر پر ہیں اور اسکی کمپین چلانے کا طریقہ واردات یہ ہے کہ چونکہ اپنی کارکردگی کی تعریف میں کہنے کو کچھ نہیں ،اس لئے دوسروں کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی جارہی ہے ۔مسلم لیگ نون کی فائلز ، ریکارڈڈ ٹیلی فونز ملک رحمن کی صورت پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ پر ڈرونز ۔اسی طرح نون برادران کا پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر حملہ ،ایم کیو ایم کراچی میں ہونے والی دہشت گردی دیکھ کر حیران ۔ مولانا فضل الرحمن پچھلے پانچ سالوں میں ہونیوالی کرپشن کی دہائی دے رہے ہیں ۔اے این پی اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے ، اس الیکشن میں اپنے شہیدوں کی تعداد بتا کر ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کے چکر میں ۔ان لیڈرز کو کچھ اور آئے یا نہ آئے مگر جوشیلے اور جذباتی ووٹرز کو انگلیوں پر نچانا انہیں خوب آتا ہے ۔
اسی لئے تو پانچ سال تک حکومت کرنیوالی ساری سیاسی پارٹیاں اب یوں ایک دوسرے کے چہرے پر ناخن مار رہی ہیں جیسے یہ کبھی اتحادی جماعتیں ،یا مک مکا جماعتیں تھیں ہی نہیں اور انکے بیانات سُن اور پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے پچھلے پانچ سال ان میں سے کوئی بھی حکومت میں نہیں تھا اور پاکستان پر پچھلے پانچ سال شیطان نے حکومت کی جس سے معصوم ایم کیوایم ، پی پی پی ،فضل الرحمن صاحب یا اے این پی بالکل ناواقف تھے ۔ اسی لئے تو اب معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے ؟ کرپشن کو روکا کیوں نہیں گیا ۔ اتنی گندی اور ابکائی آور سیاست دیکھ کر مجھے پاکستانی عوام پر غصہ آتا ہے کہ وہ کیسے یہ سب سفید جھوٹ ہضم کر کے مٹی پاﺅ والے رویے کو زندگیوں کا حصہ بنائے ہوئے ہیں ۔اسی لئے اس ملک میں 80 ارب کا فراڈ کرنبوالے صادق کو صرف تین سال سزا سنائی جاتی ہے اور بھوک کی سزا موت ہے ۔بچوں کو روٹی نہ کھلا سکنے کے جرم میں غریب پہلے ان بچوں کو قتل کرتا ہے پھر خود بھی خود کشی کر لیتا ہے ۔یہ وہ ملک ہے جہاں لیڈر ایمان بیچتے ہیں مگر ایمان کے نام پر ووٹ بھی مانگتے ہیں ۔ ان کی ہٹ دھرمی اس لئے کہ عوام ناسمجھ ہے۔
اُڑ گئے سب ورق کتابوں کے
بے رداﺅں میں گھِر گیا ہوں میں
جب سب ایک جیسے ہیں تو کون کس کو ٹھیک کرے ۔ جس ملک میں دہاڑی سے لے کمیشن کا چکر چل رہا ہے وہاں کا مسئلہ نہ کرپشن ہے نہ دہشت گردی ۔ یہ مسئلے تو تب مسئلے ہوں جب انہیں غلط سمجھا جائے ۔ بڑی کرپشن کرنے والے کو ملک صاحب کہا جائے اور چھوٹی کرپشن کرنیوالے کو دہاڈی دار تو وہاں کا مسئلہ کرپشن نہیں وہاں کا مسئلہ آگاہی اور شعور ہے ۔
ہرناکام پارٹی کی جیب میںایک ٹرمپ کارڈ ہے۔ ایم کیوایم لسانی اور قومی کارڈ گھِس گھِس کر expire ہوچکا ہے ۔پیپلز پارٹی بھٹو مرحوم اور بی بی کی المناک موت کو پانچ سال خوب نوچ کھسوٹ کر کھاتی رہی ہے۔اے این پی ریلوے کو کھا کر دہشت گردی میں مرنے والے اپنے کارکنوں کی لاشوں پر ڈکار مار رہی ہے ۔ اب جب سب پرانے کارڈز ناکارہ ہوچکے تو دائیں بازو اور بائیں بازو کی گم شدہ چہروں کو چہرہ دیا جارہا ہے۔فیوڈلز ، فاشسٹ ہونے یا اس کا ساتھ دینے والے خود کو بائیں بازو کہنے لگے ۔پانچ سال کی کار کردگی اس ملک کا ایشو نہیں ، اس ملک میں سیاست دان کا ایشویہ ہے کہ کس طرح نا خواندہ ، کم خواندہ لوگوں کو بھیڑوں کی طرح ہانکنے کے لئے ایک نیا جادو اپنی مداری پٹاری سے نکالیں ۔
نون برادارن جنگلہ بس میں لاکھوں کمانے اور بچانے کے بعد بھی شیر شاہ سوری بننے پر بضد ۔۔ کرپشن اس ملک کا سوال نہیں ،کیونکہ اس سے پہلے مذہب اور ایمان کا سخت امتحان شروع کر دیا جاتا ہے ۔ اور حیرت انگیز طریقے پر اس ملک میں پائے جانے والے اسلام میں نہ کرپشن پر کوئی پکڑ ہے ، نہ قوم سے جھوٹ بولنے پر ، نہ بد دیانتی پر ، نہ امانت میں خیانت کر نے پر ، نہ قوم کو اپنی عیاشیوں کے صدقے انٹرنیشنل مقروض اور فقیر بنانے پر ، نہ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرنیوالوں کے ذمہ داروں پر ، اس اسلامی مملکت میں ان پر فتوی دئے جاتے ہیں جو ایماندار ہیں ، جو قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور جن کے کر یڈٹ میں صحت اور تعلیم کے بڑے بڑے کارنامے حکومت میں آئے بغیر ہوں ۔ انہیں یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے کر انہیں ووٹ ڈالنا "حرام"قرار دیا گیا ہو ۔واہ رے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ملاﺅں!!!
لاڑکانہ اور پیپلز پارٹی کے دوسرے اہم علاقوں میں آصف زرداری،انکی بہن فریال تالپور اور سوتیلے یا منہ بولے بھائی جناب ٹپی کو ووٹ دینے کیلئے مقامی پیروں فقیروں کا اپنے مریدوں کو اصرار ۔۔شائد ان مریدوں کو یہ کہا گیا ہو کہ انہیں ووٹ نہ دینے کی صورت میں وہ پتھر کے انسان بن جائینگے ۔ امریکہ نے پاکستان کو پتھر کے دور میں پھینکنے کی دھمکی دی تھی ، ہم نے اس دھمکی کے احترام میں اپنے آپ کو پتھر کے دور میں داخل کر لیا ۔ پیروں کے خوف سے یقینا پاکستان کے ان پڑھ لوگ ،زردار خاندان کو ووٹ دینگے اور پھر مزے کی بات ہے پتھر میںبھی تبدیل ہونگے۔