کسی بے گناہ کو ایک سیکنڈ کیلئے بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں اور ایکشن ایڈ آف سول پاور ریگولیشن آرڈیننس 2012ءسے متعلق کیس کی سماعت، عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے اور خفیہ اداروں کے سربراہوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ 7قیدیوں کو ریکارڈ سمیت 10مئی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار اور ملزمان کے وکیل طارق اسد نے بتایا کہ 7قیدیوں میں سے 2قیدیوں ساجد اور باسط کو دو دو سال سزا جبکہ 5قیدیوں کو آرمی ایکٹ کے مطابق چودہ سال قید کی سزا دی گئی سزا قیدیوں کی غیرموجودگی میں انہیں سنے بغیر سنائی گئی اور جب لواحقین ملنے کیلئے گئے تو قیدی حراستی مرکز میں موجود نہ تھے اس پر خفیہ اداروں کے وکیل راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرائل کے بعد قیدیوں کو فاٹا کی پولیٹیکل انتظامیہ کے سپرد کر دیا تھا جبکہ قیدیوں کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ قیدیوں کو کسی فورم پر پیش نہیں کیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے گذشتہ سماعت پر 2قیدیوں کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 10مئی کو تمام قیدیوں، ان کے خلاف چلنے والے کیسوں کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو اس روز اپنی عدالت حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے متعلقہ حکام سے اس بات کی وضاحت بھی طلب کر لی کہ ان افراد کو کس قانون اور کس جرم کے تحت حراستی مرزکز میں رکا گیا ہے۔ ان گیارہ افراد کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج کے زیرانتظام حراستی مراکز میں دوران تفتیش چار افراد تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ کسی کو کسی کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کسی بے گناہ کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے، اس ملک میں آئین و قانون موجود ہے اس پر عمل کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن