سازشی مفروضے

یقین اور اعتماد کے بغیر زندگی کے کسی محاذ پر کامیابی ممکن نہیں جبکہ اس کے بر عکس غیر یقینی اور بد اعتمادی چاہے کسی بھی طرز یا معاملہ میں ہو بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ آج ہمارا ملک اور معاشرہ جس طرح کے بحرانوں کا شکار ہے اس کی بڑی وجوہات میں غیر یقینی، بد اعتمادی اور افواہوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو مایوسی اور نااُمیدی کو جنم دیتی ہیں۔ اُمید پر دُنیا قائم ہے اور مایوسی تو ویسے بھی گناہ ہے۔ معاشرے میں اس بداعتمادی اور بے یقینی کی فضا کو پیدا کرنے میں سازشی مفروضوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ہر چیز اور واقع کا غلط مطلب نکالنا اور منفی سوچ کا پرچار ہماری عادت بن چُکی ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ چاہے کوئی بھی ادارہ ہو کسی کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہا اور عوام کا پورے نظام سے ہی اعتماد اُٹھ چُکا ہے جو کہ ایک بہت خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ خرابیاں اور خامیاں کہاں نہیں ہوتیں اُنکی نشاندہی بحر صورت ضروری ہے مگر اس حد تک پرچار کرنا کہ عوام میں اُمید کی کرن ہی باقی نہ رہے کسی ملک دُشمنی سے کم نہیں۔ جس کسی سطح کی محفل میں بھی جا کر دیکھیں سازشی مفروضے زبان زدِ عام نظر آتے ہیں۔ اس سے ہم اپنی نو جوان نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں یقینا وہ بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہی ہو رہے ہیں اور یہ صورتحال کسی صورت بھی ملک کیلئے اچھی نہیں۔ معاشرے میں ایسی صورتحال پیدا کرنے میں الیکڑانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہر کوئی اپنے طے شدہ ایجنڈے کے تحت چیزوں کو پیش کر رہا ہے اور عوام پریشان ہیں کہ کس پر یقین کریں اور کس پر نہ کریں۔ ہر روز ایک نیا سازشی مفروضہ سامنے آتا ہے اور پھر اُسے سچ ثابت کرنے کیلئے عجیب و غریب طریقے سے کڑیوں کو ملایا جاتا ہے۔ ابھی ایک سال قبل ہی عام انتخابات ہوئے ہیں جس میں عوام نے بھرپور انداز میں حصہ لیا اور ایک جمہوری حکومت وجود میں آئی۔ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا مگر ہر روز نت نئی سازشوں کی کہانیاں گھڑ کر پیش کی جا رہی ہیں تا کہ عوام کا کسی پر بھی اعتماد نہ رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسائل کا قابلِ عمل حل کوئی بھی تجویز نہیں کرتا۔ صرف دعوے اور تنقید جتنی مرضی کروا لیں۔ وہ جو کل تک حکمران تھے اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہیں وہ بھی وعدوں کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں۔ آخر کار نظام کو بھی تو چلنا چاہئے اور اسی طرح بہتری آئے گی۔ شاید ہی دُنیا کا کوئی اور ملک ہو جہاں افواہوں اور سازشی مفروضوں کی اتنی فیکٹریاں پائی جاتی ہوں۔ اتنے ٹاک شوز بھی کہیں اور نہیں ہوتے ہونگے ۔
 فوج ملک کا سب سے مضبوط اور مقدم ادارہ ہے جو کہ نہ صرف ہماری حفاظت بلکہ وحدت کی بھی علامت ہے۔ اسی وجہ سے فوج ملک دُشمنوں کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے اور اب بھی ہے۔ دُشمن ہماری فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ جس کیلئے اور کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوا تو اب اسے عوام کی نظروں میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے بھی ہر طرح کے سازشی مفروضے گھڑے جا رہے ہیں تا کہ ملک میں بے یقینی کی فضا بر قرار رکھی جا سکے۔ بدقسمتی سے وہ سیاستدان جو عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے اس مہم میں پیش پیش ہیں تا کہ اپنی جگہ بنائی جا سکے۔ ہر بیان اور عمل کو منفی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور ذمہ داری کا ثبوت دیں گے۔ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بہتر ہوا ہے تو اُسے بھی منفی طور پر اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ کسی دوست ملک سے ملنے والی امداد میں بھی ہمیں سازشیں نظر آتی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی بھی سازش، معاشی صورتحال میں بہتری بھی سازش اور تھری جی فور جی لائسنس کی نیلامی میں بھی سازش، وزیرِاعظم کا فوجی تقریبات میں شرکت کرنا بھی سازش اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی روابط میں بھی سازش۔ آخر یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیں کدھر لے کر جائے گا۔ یومِ شہداء کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف کی مدلل تقریر سے بہت ساری افواہیں اور غلط فہمیاں اب ختم ہو جانی چاہئیں مگر ہمارے کچھ ’’عقلِ کُل‘‘ رکھنے والے دانشور اپنی حتمی آراء دے کر صورتحال کو کچھ اور رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔ افواہوں سے سٹاک مارکیٹ پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری جو کہ امن و امان کی صورتحال کی بدولت پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے مزیدکم ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور آئین و قانون کے تحت طے کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔ نظام میں خرابیوں کی نشاندہی ضرور کریں مگر قابلِ عمل تجاویز دے کر اصلاح بھی کریں۔ اپنا اپنا ایجنڈ آگے بڑھانے کی بجائے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے کو لے کر سب آگے چلیں اور فیصلہ عوام کو کرنے دیں کہ کس نے اچھا کیا اور کس نے بُرا۔
اچھی اور مثبت سوچ رکھنے والا ہمیشہ مثبت نتائج ہی اخذ کرے گا کیونکہ ہر چیز کو پرکھنے کے بحرحال دونوں ہی پہلو ہوتے ہیں۔ منفی بھی اور مثبت بھی۔ آئیے اپنی سوچ اور عمل سے نوجوان نسل کو اُمید اور اعتماد کا پیغام دیں کیونکہ کامیابی اور روشن مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن