لاہور (جانثار احمد/ دی نیشن رپورٹ) لاہور ڈویژن میں غیر معیاری اور جعلی ناقص ادویات کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ’’دی نیشن‘‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نگرانی کے کمزور میکانزم کے باعث جعلی ادویات پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، سمیت 4 اضلاع پر مشتمل لاہور ڈویژن کی ایک کروڑ آبادی کیلئے واحد ڈرگ کورٹ کی جانب سے مناسب سزا نہ دینا بھی موت بانٹنے والی ادویات کو پھیلنے سے روکنے میں ناکامی کی ایک وجہ ہے۔ ڈویژن میں 100 فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں اور ان پر نظر رکھنے کیلئے صرف 10 ڈرگ انسپکٹر سرگرم عمل ہیں دوسرے اضلاع میں تو حالات اس قدر خراب ہیں کہ ایک ضلع میں صرف ایک ڈرگ انسپکٹر ہے۔ پاکستان بھر میں 66 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور شہری علاقے میں میڈیکل سٹورز کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 180 ہے ہر ضلع پر ایک ڈرگ انسپکٹر اور ہر ڈویژن میں صرف ایک ڈرگ کورٹ ناکافی ہے۔ لاہور ڈویژن کے عدالتی ریکارڈ کے مطابق جنوری2013 سے مارچ 2014 تک 1415 کیسز عدالت لائے گئے جن میں سے 90 فیصد مقدمات میں مجرموں کو 5 ہزار تا 10 ہزار جرمانہ کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ قید کی سزا دس سال تھی اور مجموعی جرمانہ لگ بھگ صرف سوا کروڑ بنتا تھا۔ عدالت کے ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جعلی ادویات کا کاروبار نرم سزائوں سے پھیل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈرگ انسپکٹرز بھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس غیر قانونی کاروبارکو تحفظ دے رہے ہیں۔ ان انسپکٹرز کو کمپنیوں کی جانب سے منتھلی دی جاتی ہے تاہم کوئی بھی اس کو قبول نہیں کریگا۔ وزیراعلیٰ کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ حکومت جعلی ادویات کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ آئندہ ڈرگ انسپکٹرز کی بھرتیاں پبلک سروس کمشن کے ذریعے کی جائیں گی۔ حکومت ان ڈرگ انسپکٹرز کو اینڈرائڈ فونز فراہم کریگی جس سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب ڈرگ کورٹ کی اپنی حالت بھی انتہائی خستہ دکھائی دے رہی ہے واجبات ادا نہ کرنے کے باعث اس اکلوتی عدالت کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔
حکومت مانیٹرنگ میں ناکام، جعلی ادویات موت بانٹنے لگیں
May 09, 2014