اسلام آباد (آئی این پی) پی اے سی نے نیو بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی رابطہ سڑکوں کو 600 کی بجائے 100میٹر چوڑائی رکھنے‘ تمام منصوبوں کو مارچ 2015ء تک مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بروقت تکمیل نہ ہونے پر نقصانات کے ذمہ دار پلاننگ ڈویژن اور سول ایوی ایشن حکام ہوں گے‘ بیوو کریسی وزیر اعظم کی آنکھیں اور کان ہوتی ہے لیکن یہ زمینی حقائق کے برعکس وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہیں‘ پی اے سی منصوبے سے 20 ارب روپے بچانے کیلئے وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھے گی‘ امریکہ سمیت پوری دنیا میں کم از کم 25سالوں کی پلاننگ ہوتی ہے ‘پاکستان میں 50 سالہ پلاننگ میںبھی پانی کی فراہمی موجود نہیں‘ بیورو کریسی اپنے چہرے کے تاثرات چھپا کے رکھے ان کے چہرے کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ افسران کو کوئی بات کتنی اچھی یا بری لگی ہے ‘ہیتھرو ایئرپورٹ پر سالانہ 9کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں اور 2رن وے ہیں، وسائل ہیں تو تیسرا بنا لیں، قرض لیا گیا تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے، حالات کو دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہیئیں، اخراجات کم کئے جائیں اور پلاننگ کے مطابق خرچ ہوں، اس وقت13 ٹریلین قرض لے چکے ہیں، حکومت روزانہ 5 ارب قرضہ لے رہی ہے، حکام نے موقف اختیار کیا کہ ایئرپورٹ سٹیٹ آف آرٹ ہو گا، 3300 ایکڑ پر محیط ہے،8 ارب کے مزید 1700 ایکڑ زمین خریدی جا رہی ہے، آبادی بڑھنے سے لاہور، کراچی، کوئٹہ ،پشاور کے ایئرپورٹ کی جگہ بھی تنگ ہو چکی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا سکینڈل سامنے آئے، ملکی خزانے کو نقصان سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، منصوبے کو 30 سال ہو گئے ہیں اور 1 ہزار ارب کا نقصان ہو چکا ہے، 33 فیصد اضافہ ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اگر پیسہ زیادہ ہے تو زمین خرید لیں، ورنہ یہ ایئرپورٹ پر خرچ کریں۔ رکن کمیٹی سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ ایئرپورٹ پر پانی نہیں ہے اور پلاننگ 50سالوں کی کر رہے ہیں، سسٹم کیسے چلے گا۔ کمیٹی نے ایئرپورٹ پر تیسرے رن وے کی تعمیر کو قرضہ نہ لینے کی شرط پر منظور کیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2007ء میں آصف علی ایسوسی ایٹ کو 20 لاکھ روپے روڈ نیٹ ورک کے لئے دیئے گئے جبکہ 2011ء میں ایک اور کنسلٹنسی کے لئے 32 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔ جس پر چیئرمین این ایچ اے شاہد تارڑ اور آڈٹ حکام کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی، جس کا کمیٹی نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کی توہین بھی لگ سکتی ہے، آپس کی جنگ نہ لڑیں، یہ پی اے سی ہے، چہرے کی رونق دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ افسروں کو کتنا اچھا لگا ہے اور کتنا برا۔ آڈٹ حکام پی اے سی کا حصہ ہیں اور پی اے سی کو گائیڈ کرتے ہیں،20 ارب بچ گئے تو کیا یہ ہماری جیب میں جائیں گے، جس نے سروے کیا اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ کمیٹی کی سرزنش پر چیئرمین این ایچ اے نے معذرت کی۔