سچے عدل سے ہی کسی بھی ملک اور قوم کی عظمت کا اندازہ لگانا اس کی عدلیہ کی کارکردگی سے ہی ممکن ہوتا ہے- ساری دنیا میں سلطنت برطانیہ کا انصاف مشہور ہے- دنیا کے کئی ایک ملکوں میں انگریزی طرز کا عدل کامیابی سے جاری ہے -برطانیہ کی عظمت کا سب سے بڑا ستون وہاں کا نظام عدل ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یو۔کے میں واقعی انصاف ہوتا ہے۔ جج صاحبان سب کے سامنے کھلی عدالتوں میں انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی سیاستدان یا بڑے سے بڑے حکمران کی کیا مجال ہے کہ وہاں عدل سے متعلقہ کاموں میں مداخلت کرے۔ ساری قوم کا عدالت پر اعتماد ہوتا ہے۔ اس موقع پر میں ایک تاریخی واقع بیان کرتا ہوں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران لنڈن پر دن رات لگاتار بم برسائے جا رہے تھے۔ لنڈن اور دیگر بڑے شہروں کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہ تھا جہاں پر جنگ کی تباہی اور بربادی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔ لنڈن شہر کے تو بعض علاقے جرمن ہوائی جہازوں کی بمباری سے کھنڈرات بن چکے تھے۔ قوم میں کسی حد تک مایوسی کے بادل چھا چکے تھے۔ ہر محاذ پر برطانیہ کو شکست ہو رہی تھی۔ ان خوفناک حالات کے پیش نظر ایک اخبار نویس نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم چرچل سے یہ سوال پوچھا کہ کیا اس وقت برطانیہ کی فتح یا حفاظت کے حالات نظر آتے ہیں؟ اس سوال کے جواب پر برطانوی وزیر اعظم چرچل نے اخبار نویس سے یہ سوال پوچھا کہ کیا اس وقت برطانیہ عظمیٰ کی عدالتیں کھلی ہیں اور لوگوں کو بر وقت انصاف مل رہا ہے؟ جواب میں اخبار نویس نے بتایا کہ واقعی ملک کی تمام عدالتیں کھلی ہیں اور لوگوں کو بلا رکاوٹ انصاف مل رہا ہے۔ اس جواب پر وزیر اعظم چرچل نے فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت برطانیہ کو شکست نہ دے سکے گی۔ دنیا نے پھر یہ دیکھا کہ چرچل کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔ جرمنی کو شکست ہوئی اور برطانیہ کامیاب و کامران ہوا۔
انصاف کا عوام کے دلوں میں حیرت انگیز اثر ہوتا ہے اور ملک و قوم کے لیے برے وقت میں لوگ بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنانا چاہتے ہو تو پھر عدل کے نظام کو اوّلین دو منصفان جب تک آزاد اور خود مختار نہ ہوں گے اس وقت تک سچا انصاف نہ ہو سکے گا۔ لوگوں کے دلوں میں بے چینی کا لاوا پکتا چلا جائے گا جس کے پھٹ جانے سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت لاکھوں مقدمات زیر التوا پڑے ہوئے ہیں بعض اوقات ساری عمر انتظار میں گزر جاتی ہے مگر مقدمے کا فیصلہ نہ ہوتا ہے۔ جج صاحبان دن رات انصاف کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو کم ہی آرام ملتا ہے۔ یہ بات بھی سننے کو ملی ہے کہ بعض عدالتیں رات کو بھی عدل کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان حالات کے باوجود مقدمات کی بھرمار ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ دیر سے کیا ہوا انصاف دراصل انصاف سے انکار کے برابر ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ موجودہ انصاف میں دیر کی وجہ سے لوگوں کا اس سے اعتماد اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ عدالتیں کام نہیں کر رہی ہیں۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ پاکستان میں واحد عدلیہ کا ادارہ ہے جہاں وقت پر عدالتیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں اور عدالت کا وقت ختم ہونے کے باوجود مقدمات کی سماعت کا کام جاری رہتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس منظور احمد ملک رات تک اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ میری ذاتی مثال قوم کے سامنے ہے کہ ہائی کورٹ میں آٹھ سالہ دور میں، میں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی تھی بلکہ تمام چھٹیوں کے دوران لگاتار کام کرکے دنیا میں ایک ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔
عوام کو جلد انصاف مہیا کرنے کا واحد یہی علاج نظر آتا ہے کہ جج صاحبان کی تعداد میں معقول اضافہ کر دیا جائے۔ پاکستان کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان بشمول گلگت و بلتستان و آزاد کشمیر کی آبادی بیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ آپ اس بات سے آبادی کی اضافے کا اندازہ لگائیں کہ کبھی لاہور صرف اور صرف فصیل کے اندر واقع ہوتا تھا۔ آج وہی لاہور شہر سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ لاہور، قصور اور شیخوپورہ تقریباً تقریباً ایک ہی شہر کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ادھر کراچی اکیلے شہر کی آبادی 2 کروڑ تک ہو گئی ہے۔ آبادی کا یہ بم پھٹ چکا ہے۔ سارے ملک میں جس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔آبادی کے تناسب سے ججوں کی تعداد بڑھانے اورعدلیہ کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کا تقرر اور اثرات
May 09, 2015