سابق صدرآصف علی زرداری کی یاری کے قصے ملک بھر میں بہت مشہور ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو نوازنے میں نتائج کی پروا کئے بغیر حد سے تجاوزکر جاتے ہیں اور اس حوالے سے کسی تنقید اور دباﺅ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ بی بی شہید کی زندگی میں اپنی دوست نوازی کی فطرت کی وجہ سے انہوں نے کافی سیاسی نقصان اٹھایا۔ ان کی دوست نوازی کی وجہ سے انکے احباب نے خوب مفادات سمیٹے جس کا خمیازہ ہمیشہ پی پی اور بی بی کو بھگتنا پڑا۔ بی بی کی شہادت کے بعد جب وہ برسراقتدارآئے تو بھی انہوں نے یہ تہمتیں سر پر اٹھائیں ¾ کیونکہ ان دنوں کہا جاتا تھا کہ ملاقاتیوں اور مشقتیوں کی حکومت ہے¾ انہوں نے دوستوں کو ہر ایک پر ترجیح دی۔ وہ ایوان اقتدار سے نکلے تو کئی ایک دوستوںکیلئے اجنبی ہوگئے۔ شریک چئیرمین پیپلز پارٹی کے پٹارین دوست ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا اور انکی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ¾ آصف علی زرداری کی بارات کے ساتھ پیپلز پارٹی میں آئے تھے۔ بی بی اورآصف علی زرداری کی شادی کیا ہوئی ¾ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کے دن پھرگئے۔ اپنے شوہر کی فرمائش پر بی بی نے بدین کا سیاسی قلعہ نووارد میاں بیوی کے نام کر دیا۔ جب پیپلز پارٹی میں آئے تو وہ خالی ہاتھ تھے¾ ان کے پاس کوئی شوگرمل نہیں تھی ¾ کوئی مرزا فارم نہیں تھا۔ بعض لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ جب وہ بدین میں وارد ہوئے تو انکے پاس رہنے کو گھرنہیں تھا ¾ ان کا ابتدائی قیام بھی بدین کے ایک ہوٹل میں تھا۔ 1988ءسے لیکر2011ءتک تئیس سالوں میں ڈاکٹر ذوالفقارعلی مرزا کی پانچوں گھی میں تھیں۔ ان دو دہائیوں میں انکے پاس اتناکچھ آ گیا کہ جس کا کوئی خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ سابق صدر زرداری سے اختلافات کے ابتدائی دنوں میں وہ انکے احسانات کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے تھے۔ ذرا پلٹ کر دیکھئے جب ڈاکٹر ذوالفقارعلی مرزانے ایم کیو ایم کےخلاف محاذ آرائی کا آغازکیا توکہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ چکے ہیں لیکن آصف علی زرداری کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ انکے تن پر جو کپڑے ہیں ¾ وہ بھی آصف علی زرداری کے دئیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی چھوڑی ہوئی صوبائی نشست پر اگر ان کا بیٹا بھی انتخاب لڑا تو میں اس کا ساتھ نہیں دوں گا۔ حسنین مرزا نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر نہ صرف وہ ضمنی انتخاب لڑا بلکہ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا انکی اعلانیہ انتخابی مہم بھی چلاتے رہے۔ آصف علی زرداری کے ایوان صدر سے باہر آتے ہی انہوں نے اپنی پٹاری کھول دی ہے جس سے پھنکارتے ہوئے ¾ نفرتوں اور الزامات کے ناگ باہر آ رہے ہیں جس سے زرداری ¾ مرزا دوستی اور پیپلز پارٹی کی پورے ملک میں بھد اڑ رہی ہے لیکن انکی اہلیہ اورصاحبزادے شدید اختلافات کے باوجود اب بھی پارٹی کی نشستوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
ہمارے عوام سادہ لوح ہیں اورکہا جاتا ہے کہ ان کا حافظہ بھی کمزور ہے ¾ مگر ریکارڈ کی درستی کیلئے حقائق منظر عام پر ضرور آنے چاہئیں؟کوئی بتائے کہ 1988ءسے پہلے ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کیا تھے اور کہاں تھے؟ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا یہ جو دن رات سیاسی تاریخ سے نابلد ٹی وی میزبانوں کے سامنے پیپلز پارٹی کےلئے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے منہ سے جھاگ بہاتے نہیں تھکتے ¾ کوئی ان سے سوال کیوں نہیں کرتا کہ جب جنرل ضیاءالحق کی آمریت میں تحریک بحالی جمہوریت کوکچلنے کےلئے سندھ کے دیہات مسمارکئے جا رہے تھے تو سندھ کا یہ سورما کہاں تھا؟ جب لالا اسد ¾ لالا اسلم اور فقیر اقبال ہسبانی کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا تو سندھ کا یہ باغی بیٹاکس گھاٹ کا پانی پی رہا تھا؟کوئی یہ بھی ان سے پوچھے کہ پیپلز پارٹی کے عتابی دنوں میں ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا نے اپنی برہنہ پیٹھ پرکتنے کوڑے اورکتنے پھٹکے کھائے اورکتنا عرصہ اسیری میں گزارا؟ جب مرتضیٰ بھٹو اور علی محمد سنارا سرعام گولیوں سے بھون دئیے گئے تو سندھ کا یہ شیر دل رہنما کیوں خاموش رہا؟ سچی بات یہ ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ پیپلز پارٹی کو بی بی کے جہیز میں ملے اور یہی وہ موقع تھا کہ ان کے مقدرکا ستارہ چمک اٹھا۔ انکی اس کامیاب زندگی کے پیچھے آصف علی زرداری کا ہاتھ تھا جنہیں وہ آج قاتل اور خائن قرار دے رہے ہیں۔ 1993ءکے بعد جب ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا ” روپوش“ ہوئے تو ان کی اہلیہ جو چند سال پہلے تک انہیں طعنے دیتی تھیں کہ یہ کیا تم سیاست میں گھسے رہتے ہو ¾ انکے متبادل کے طور پر وہ بدین سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر بی بی کی کچن کابینہ میں آ گئیں۔ الزامات سے قطع نظر آصف علی زرداری تو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتے ہی رہتے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ بی بی کا شوہر اگر آسمان سے بھی اترتا تو اس کا اسی طرح میڈیا ٹرائل ہوتا۔1988ءسے لےکر2011ءتک زرداری ¾ مرزا دوستی کی قسمیں کھائی جاتی رہی ہیں ¾ وہ یک جان دو قالب سمجھے جاتے تھے۔ اب اگر ان تئیس سالوں میں آصف علی زرداری نے کوئی فعلِ قبیح کیا بھی ہے تو ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا اس سے خودکو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اور اگر وہ اتنے برسوں ان سنگین جرائم پر خاموش رہے تو یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض دل جلے جیالے کہتے ہیں کہ یہ نظریات کی لڑائی نہیں ¾ مال یا اختیار کی لڑائی ہے جس کے سبب ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا پیپلز پارٹی کے مخالفین کے جھانسے میں آ گئے ہیں اور انکی نادانیوں کا براہ راست فائدہ کسی اورکو مل رہا ہے۔ میرے بابا مجھے دوستی کے حوالے سے اقلیم حکمت و دانائی کے سلطان حضرت لقمان کی روایت سنایاکرتے تھے۔کہتے تھے بیٹا دوستی بہت بڑی آزمائش ہے ¾ اس سے بچ سکو تو بچنا اور اگر دامن نہ بچا سکو تو پھر حضرت لقمان کے فرمان کو جزو جاں بنا لینا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرکسی کو دوست بنانا چاہتے ہو تو پہلے ایک گڑھاکھودو اور پھر اسکے سارے عیب اس گڑھے میں دفن کر دو ¾ زندگی میں کبھی دوستی میں شرمندگی سے پالا نہیں پڑیگا۔ آصف علی زرداری خوش قسمت انسان ہیں ¾ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی وفا شعار بیوی ملی ¾ شہرت ملی‘ دولت ملی اور اقتدار ملا لیکن انہیں اچھے دوست نہیں مل سکے۔ دوستی کے معاملے میں آصف علی زرداری مردم شناس ثابت نہیں ہوئے۔