وزیر اعلیٰ پنجاب سرکاری بھتہ مافیا سے نجات دلائیں

یہ مئی کی ایک گرم دوپہر تھی ۔ بس حسب معمول سٹاپ پر رکی ۔ میری نظر وہاں کھڑے ایک بوڑھے چھابڑی فروش پر پڑی ۔ ابھی میں اس ضعیف العمری اور لاغری میں رزق حلال کیلئے اسکی مشقت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی ،کہ اچانک بس کے سامنے ایک جیپ آکر رکی ، جس کی فرنٹ سیٹ سے ایک شخص نکلا اور اس بوڑھے پر ٹوٹ پڑا۔اسے ایک دو لاتیں رسید کیں اور ہاتھ میں موجود چھڑی سے بھی اسے بڑی بے دردی سے پیٹا ۔اسکی چھابڑی اُٹھوا کر پیچھے آنیوالے ٹرک میں پھینکوا دی ۔وہ بیچارہ بے بسی کے عالم میںرونے لگا ۔اور کانپتے ہاتھوں سے سڑک پر اپنے گرے ہوئے کچھ پھل جھولی میں سمیٹنے لگا ۔ یہ منظر دیکھ کر میں اپنے دلی کرب کے ہاتھوں مجبور ہو کر بس سے اُتر آئی اور بوڑھے کے پاس جا کر اسکے ساتھ ہونیوالے اس ظالمانہ سلوک کی وجہ پوچھی ۔اسکے جواب نے میرے اضطراب میں مزید اضافہ کر دیا۔ بوڑھے نے بتایا کہ یہ شخص ایل ڈی اے کے محکمہ سے تھا۔چونکہ سڑک کے کنارے چھابڑی لگانا انکے نزدیک غیر قانونی ہے اس لیے مجھ سے یہ سلوک روا رکھا گیا۔ بوڑھے کے ساتھ ہونیوالا یہ بے رحمانہ سلوک میں آج تک نہیں بھلا سکی۔ ایک غریب بوڑھا شخص جس کی کفالت کی ذمہ داری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت پر تھی ، ناروا سلوک کا نشانہ کیوں بنا۔ اسکے سفید بالوں اور کمزور ہڈیوں کا بھی حیا نہیںکیا گیا۔ تھوڑی سی پونجی کے ساتھ چھابڑی میں اپنا رزق سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر تلاش کر رہا تھا ۔ جن سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکوں میں گھپلوں کی داستانیں زبان زد عام و خاص ہیں لیکن ان کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑتا ۔رزق حرام کمانے پر تو کوئی قد غن نہیں اور نہ ہی قومی دولت لوٹ کر جیبیں بھرنے والوں پر کوئی گرفت ہوتی ہے۔ گرفت ہوتی ہے تو بے چارے غریب چھابڑی فروشوں ریڑھی بانوں کی ۔ جن میں ایسے کئی اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی معاشی مجبوریوں سے تنگ ہو کر اور کوئی نوکری نہ پا کر چھابڑی لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ پاکستان میں اس وقت ہزاروں طالب علم ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ان پڑھ تو ایک طرف پڑھے لکھے بے روزگار افراد بھی ریڑھیاں لگانے پر مجبور ہیں۔ ایسے غریب افراد جن کے پاس اتنی دولت نہیں ہوتی کہ وہ کوئی مناسب کاروبار شروع کریں دکانیں خریدیں یا دکانوں کے کرائے ادا کریں ان کیلئے آسان اور کم بجٹ میں شروع کیا جانے والا کاروبار ریڑھی لگانا ہے ۔ اس کیلئے وہ مختلف دکانوں کے آگے کی جگہ کم کرائے پر حاصل کرتے ہیں ۔ یا سڑکوں کے کنارے اپنی ریڑھیاں لگاتے ہیں ۔ یہ غریب افراددکانوں کے کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے ان غریبوں کو چین سے روزی بھی کمانے نہیں دی جاتی ۔ انکے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ اور ایسا برسوں سے ہوتا چلا رہا ہے ۔ ہر ریڑھی والے سے پولیس والے آکر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ اسکے علاوہ ایل۔ڈی۔اے اور ٹی۔ایم ۔ اے کا عملہ ان سے باقاعدگی سے ماہانہ ایک فکس رقم وصول کرتا ہے جس کے حصے اعلی افسروں تک پہنچتے ہیں ۔ہر نیا آنیوالا افسر بھتہ کے ریٹ میں اضافہ کرنے کیلئے بے رحمانہ سخت آپریشن شروع کر دیتا ہے۔ جسکے بعد اسکے کارندے بھتہ کی رقم مزید اضافہ کر کے وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔اس رقم کی نہ تو کوئی رسید ہوتی ہے اور نہ ہی یہ قومی خزانے کا حصہ بنتا ہے ۔ اس رقم کی ادائیگی کے باوجود ان کا سامان آئے روز ایل ڈی اور ٹی ایم کا عملہ اٹھا کر لے جاتا ہے ۔ اس سامان کی واپسی کے عمل میں چار پانچ روز لگ جاتے ہیں ۔ اور پھر یہ غریب اپنا سامان بھاری رقم ادا کر کے وصول کرتے ہیں ۔ اس دوران دیہاڑی کمانے والے شخص کے گھر میں فاقے ہوتے ہیں ۔ اور سامان کی توڑ پھوڑ کا نقصان الگ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ پورے لاہور میں اس وقت سینکڑوں بڑی اور چھوٹی مارکیٹس ہیں ۔ان مارکیٹس میں ہزاروں کی تعداد میں ریڑھی بان اور چھابڑی فروش ہیں ۔ اورہر ایک سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے ۔ اس بھتہ خوری سے غریب جہاں پریشان ہیں وہاں ان کو آئے روز سامان کے پیچھے ذلت الگ اٹھانا پڑتی ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف اپنی غریب پروری اور درد مندی میں خاص شہرت رکھتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کیلئے اہم اقدامات اُٹھائیں ۔روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ بیروزگاروں کو بیروزگاری الاونس دیا جائے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اس غریب طبقہ کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنا کر کاروبار میں مدد کی جائے ۔پہلے سے موجود ماڈل بازار ناکافی ہیں اس لیے ہر بلاک کی مارکیٹ میں ریڑھی بازار لگائے جائیں ،اور فوڈ مارکیٹ الگ سے بنائی جائے۔ ایسی ریڑھیاں، کاونٹر اور چھابڑیاں جو کہ سڑکوں اور سروس لائن سے ہٹ کر ہوں اور وہ ٹریفک کی روانی میں مخل نہ ہوں تو ان کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اگرسڑک اور دکانوں کے درمیان کا حصہ سرکاری زمین ہے تو اس جگہ پر کام کرنے والوں کو بھتہ مافیا کے سپرد کرنے کے بجائے حکومت مناسب کرائے پر ان غریبوں کو وہاں کام کرنے کی باقاعدہ اجازت دے دے اور انھیں قانونی تحفظ دے کر بھتہ مافیا کی چیرہ دستیوں سے پچائیں ۔ یوں قومی خزانہ میں اضافہ کے ساتھ بے روزگاری کے مسئلے کا بھی ایک مناسب حل نکل آئیگا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...