روم/لندن (آئی این پی) اٹلی میں مسجدوں کی کمی بڑا مسئلہ بن گئی ہے، اٹلی میں16لاکھ مسلمانوں کےلئے صرف 8 مسجدیں ہیں۔ دوسری طرف بیلجیئم کے وزیر کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ یورپ میں بہت جلد مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زیادہ ہوجائے گی۔ ”دی سن“ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کوین گرین نے کہا کہ یورپی یونین کو اس بات کا ابھی احساس نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ بیلجیئم میں اس وقت 6 سے7لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس جہاں مسلمانوں کی آبادی اٹلی سے تین سے چار گنا زیادہ ہے وہاں مسجدوں کی تعداد2200ہے، فرانس کا سیکولر آئین ریاست کو عبادت کیلئے عمارت تعمیر کرنے سے منع کرتا ہے۔ برطانیہ میں جہاں مسلمانوں کی آبادی28لاکھ کے قریب ہے یہ آبادی اٹلی کے مقابلے میں دوگنی ہے وہاں مسجدوں کی تعداد 1500 ہے۔ پاڈوا یونیورسٹی کے محقق اور اٹلی کی مساجد کتاب کے مصنف کے مطابق اٹلی میں مساجد کے علاوہ 800 ثقافتی مراکز اور مصلح خانے ہیں جنہیں رسمی طور پر عبادت کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اٹلی میں اکثر مسلمان گیراج، تہہ خانے اور گوداموں کو عبادت کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ اٹلی میں مساجد کی کمی کے کئی عوامل میں پہلی وجہ یہ ہے کہ اٹلی میںاسلام کو باضابطہ طور پر مذہب کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا جیسا کہ رومن کیتھولک چرچ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اٹلی میں عوام کی طرف سے مسجدوں کے فنڈز اکٹھے بھی کرلیے جائیں تو مسجد کو کھولنے کیلئے حکام کی طرف سے اجازت ملنا بہت مشکل ہے اکثر مقامی کمیونیٹیز کی طرف سے مسجد کی تعمیر کی مخالفت سامنے آجاتی ہے۔ مذہبی مقامات کی تعمیر کے سلسلے میں اٹلی کے مسلمان دوسرے مسلمان ممالک کی طرف سے فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں جن کی مثالیں روم میں مسجد کی تعمیر میں سعودی عرب اور کئی دیگر مذہبی اداروں کی تعمیر میں قطر کی طرف سے فنڈنگ سامنے ہے۔ انتہاپسندی کے خدشے کے پیش نظر عبادت گاہوں کےلئے بیرونی فنڈنگ کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ اٹلی کے باشندے زیادہ تر کیتھولک ہیں۔ تاہم چالیس لاکھ آبادی کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی۔ جنوری 2016 تک، وزارت داخلہ کے مطابق اٹلی میں 50لاکھ تارک وطن آباد ہیں جو اٹلی کی مجموعی آبادی کا 8عشاریہ4فی صد ہیں۔ اٹلی میں ہر تین میں سے ایک تارکین وطن مسلمان ہے جو مجموعی آبادی کا 2 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔ 2030میں اس میں دگنا اضافہ ہوجائے گا۔
اٹلی/ مساجد