قارئین کون نہیں جانتا انسان بنیادی طورپر کمزوریوں کا مجموعہ ہے‘ لیکن اس میں اسکی سب سے بڑی کمزوری بلکہ جرم اسکی محسن کشی اور احسان فراموشی ہے اور یہ حقیقت لمحہ موجود کی نہیں بلکہ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ محسن کشی ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ یہ انسان کی ازلی اور حتمی فطرت ہے کہ وہ محسن کے روحانی بلکہ جسمانی قتل کا سبب بنتا آیا ہے اور اس گناہ پر کبھی بھی قابو نہیں پا سکا۔ بادشاہوں کی تاریخ دیکھئے ہمیشہ ان کے زیربار اور کمتر اہل دربار اعلیٰ عہدوں پر نوازے جانے کے بعد ان سے بغاوت کرتے رہے ہیں اور پھر انکی موت کا وسیلہ بنتے رہے ہیں۔ اسی طرح عام زندگی میں دیکھئے جس حقیر انسان پر آپ ترس کھا کر مسلسل اس پر احسان کریں گے‘ اسے فائدہ پہنچائیں گے وہی ضرورت مند اور احسان مند شخص اسی تناسب سے آپ کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہے گا اور آخر کار جب محسن کا احسان اس پر آکر مکمل ہو جائےگا اس کا کالا منصوبہ بھی اپنی انتہا پر پہنچ کر مکمل ہو جائیگا۔ یوں وہ آپ کو آخری ضرب لگا کر تباہ کر دےگا۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں مشہور ہے وہ جس مُردے کو زندہ کیا کرتے تھے‘ وہی آپ کی جان کا دشمن بن جایا کرتا تھا۔ بحرحال اس سلسلے میں بہت زیادہ سوچ بچار اور تدبر کرنے کے بعد کم از کم ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دراصل محسن کی مسلسل نیکی اور احسانات محسن کش کے ذہن میں اس کا ایک کمزور تصور ابھارتے ہیں اور نیکی کو اس کی حتمی کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جوں جوں محسن کا اپنے محسن کش کے ساتھ نیکی کا عمل بڑھتا جاتا ہے یا مکمل ہوتا جاتا ہے‘ توں توں محسن کش اسے کمزور تر سمجھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اچانک اس پر سواری کرنے کی‘ اس پر وار کرنے کی بلکہ بعض اوقات تو اس پر حکم چلانے کی پوزیشن میں آجاتا ہے جبکہ ہوتا یوں ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ ایک طرف نیکوکار کو نیکی کی توفیق عنایت فرماتا جاتا ہے تاکہ اس کے سلسلے میں جزا کا عمل شروع کر سکے۔ دوسری طرف محسن کش کو خودبخود مزید بدی اور احسان فراموشی کا موقع ملتا جاتا ہے اور وہ اپنے تمام تر بدنیتی کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر محسن پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ یوں ان دونوں انتہائی صفات کا آپس میں ٹکراﺅ ہو جاتا ہے جبکہ ہر انسان سوچتا یہ ہے کہ اصولاً ہونا یہ چاہئے تھا کہ محسن کش جلد سے جلد اپنے انجام کو پہنچنے اور محسن کو اس کی بدی سے عافیت مل جائے مگر ایسا ہوتا اس لئے نہیں ہے کہ جس طرح رب العزت نے نیکوکار یا محسن کو اپنی نیکی کی انتہا کی مہلت دی تھی‘ اسی طرح وہ محسن کش اور بدکار کو بھی مہلت دیکر بدی یا محسن کش کی انتہا کر دینے کا موقع مہیا کرتا ہے تاکہ مسلسل بدی تکمیل کی طرف بڑھتی رہے بلکہ کئی مواقع پر تو اکثر اسے حالات کی موافقت بھی عطا کی جاتی ہے‘ یعنی محسن کش یا بدکار کو اسکے ذاتی کرتوتوں سے بہلا دیا جاتا ہے۔ وہ بدی کے ہر کام پر مطمئن ہوتا چلا جاتا ہے بلکہ اپنے ہر غلط کام کو ٹھیک سمجھتا ہے یہاں تک کہ دونوںاپنے اپنے منطقی اور حتمی انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ نیکوکار اور محسن کو صبروجبر کے حوالے سے جنت کی ہمیشگی کی زندگی کا تحفہ عطا کیا جاتا ہے جبکہ محسن کش کو جہنم کا ایندھن بنانے کیلئے تیار کر لیا جاتا ہے لہٰذا اس حوالے سے محسن کو یہ چاہئے کہ جب محسن کش کی جانب سے اسے پہلا جھٹکا ملے تو وہ اسکے ساتھ مزید نیکیاں اور بے غرض احسانات کرتا چلا جائے۔ اپنی نیکی کو نہ روکے بلکہ اس طرح وہ اسے اپنے انجام کو پہنچنے میں اسکی مدد کر سکے گا۔
قارئین ! دیکھا جائے تو ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی رمز پوشیدہ ہوتی ہے‘ وہ اکثر بدکار کو اپنے سے پرے دھکیلنے کیلئے نیکوکار پر اسے باقاعدہ برتری بھی عطاکر دیتا ہے تاکہ اسے مزید بدی میں مزید چھوٹ مل جائے۔ جسے بدکار اپنی مستقل فتح سمجھ کر مزید بدمست ہوتا چلا جاتا ہے‘ لیکن دراصل وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ایک آیت کا ترجمہ یوں ہے کہ: ”ایک چال تم چل رہے تھے‘ ایک چال تمہارا دشمن چل رہا تھا مگر ایک چال حق تعالیٰ بھی چل رہا تھا اور وہ بہترین چال چلنے والا ہے۔“
احسان فراموشی کے سلسلے میں انسانوں کو تو چھوڑ دیجئے‘ خود رب کائنات کے ساتھ انسان کی احسان فراموش کا یہ عالم ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ زندگی جیسی نعمت اور مزید کروڑوں نعمتوں اور رحمتوںکے باوجود بھی کفر جیسی انتہا سے باز نہیں آتا بلکہ جوں جوں وہ نعمتوں کا اتمام کرتا چلا جاتا ہے‘ انسان کو ان نعمت میں اتمام حجت کرتا جاتا ہے۔ قارئین! میں سمجھتی ہوں احسان فراموشی کی لعنت جس انسان میں بھی موجود ہے‘ وہ نہ صرف اپنی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مزید رحمتوں اور احسانات کو اپنے ہی ہاتھوں روک لیتا ہے‘ بلکہ اسے روز قیامت بھی عتاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑ گا۔ احسان کسی کا چاہے تنکے برابر بھی کیوں نہ ہو‘ اسے پہاڑ برابر Enlarge کرکے رکھئے سوچئے اور کوشش کیجئے کہ اس کا بدلہ بھی اتنا ہی بڑا دیجئے اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو کم از کم اسے اپنے ممنون و مقروض ہونے کا احساس ضرور دلاتے رہیں۔ آپکے اس عمل سے نہ صرف اللہ تعالیٰ خوش ہوگا بلکہ آپ کے محسن کو بھی آپ پر احسان کرنے کی مزید توفیق عطا کرے گا۔ سو بہتر ہے انسان احسان فراموشی اور محسن کشی کے گناہ سے ہمیشہ توبہ تائب رہے کیونکہ اسی میں ا کی آخرت اور دنیا کی بہتری پوشیدہ ہے۔ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر گزار ہونا ہی اسکے احسان گزار ہونے کی دلیل ہے جس کا اجر اسے اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہتا ہے۔ سارا پھیر انسان کی ناسمجھی کا ہے۔
”محسن کشی اور احسان فراموشی“ سے بچیئے
May 09, 2017