کتنے بُرے ہمسائے

ہمسائے اچھے ہوں تو زندگی کا لطف دوبالا رہتا ہے۔ یہی خراب ہوں تو دن کو چین رہتا ہے نہ رات کو۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمیں برُے ہمسایوں نے گھیر رکھا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھارت اور افغانستان سے ہماری طرف گرم ہوا نے ہی رخ کیا ہے۔ ایران کی طرف سے اگر گرم ہوا نہیں آتی تو ٹھنڈی بھی نہیں آتی۔ جس طرح کاروباری دنیا میں کارٹل بن جاتے ہیں‘ اسی طرح بُرے لوگ بھی یکجا رہتے ہیں۔ اس وقت ہمارے خلاف بھارت اور افغانستان کا کارٹل بڑا واضح ہے۔ بھارتی ایما پر افغان سکیورٹی فورسز نے چمن کے سرحدی علاقے میں مردم شماری سکیورٹی ٹیم اور سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ سرحد پار سے 10 گھنٹے گولہ باری کی گئی۔ ہمارے دفترخارجہ نے اس واقعے پر روایتی شدید تشویش کا اظہار کر دیا۔ حملے کے بعد پاک افغان سرحد پر موجود ’’باب دوستی‘‘ کو ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان نے افغانستان سے ہمیشہ دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن اب یہ دوستی باہمی کی بجائے یکطرفہ ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے اور ہم ان الزامات کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم اپنے دشمنوں کی زیادتیوں کے جواب میں ’’مذمت‘‘ اور ’’تشویش‘‘ کے آگے نہیں گئے ۔ کونسی مذمت اور تشویش ایسی ہے جس کا بھارت یا افغانستان کی صحت پر اثر پڑا ہو۔ افغان نیشنل آرمی امریکہ کی دست نگر ہے۔ نیٹو کی طرف سے بھی اسے مدد ملتی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ بھارتی ’’را‘‘ اور افغان این ڈی ایس پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف اور ایک دوسرے کی ممدومعاون ہیں۔ لاہور میں مال روڈ اور سیہون شریف میں دھماکوں کے بعد پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحدیں بند کر دی تھیں۔ بعدازاں افغان عوام کی مشکلات کے پیش نظر کھول دی گئیں تاکہ اناج‘ سبزیاں اور پھل افغانستان پہنچ سکیں۔ افغانستان میں بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ رشوت اور مراعات دیکر کوئی بھی کام کرایا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں صرف امریکہ کی دلچسپ نہیں رہی بلکہ روس اور چین بھی پاکستان کے ساتھ جڑ کر افغانستان میں پیش قدمی کے خواہشمند ہیں۔ امریکہ اور بھارت اسی پیش قدمی سے خوفزدہ ہیں۔ اشرف غنی نے دورۂ پاکستان کی دعوت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ میں مقیم اپنے بیٹے اور بیٹی کو حال ہی میں 150 ملین ڈالر منتقل کئے ہیں۔ افغان معیشت کو بھارت کے ہندو کنٹرول کر رہے ہیں۔ افغان خفیہ ایجنسی این ایس ڈی کو بھی ’’را‘‘ کنٹرول کر رہی ہے۔ افغان اشرافیہ اور خود صدر اشرف غنی کی سوچ پر بھارتی اثرات غالب ہیں۔ پاکستان سے اعلیٰ سطحی وفد کے کابل کے دورے کا کیا یہی نتیجہ سامنے آنا تھا کہ 11 پاکستانیوں کو شہید کر دیا جائے۔ کیا کدورتیں اور غلط فہمیاں اسی طرح دور ہوتی ہیں۔ ہمارے سابق آرمی چیف راحیل شریف نے کابل میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ 38 لاکھ افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کا کیا صلہ ملا؟ افغان صدر اشرف غنی نے دورۂ پاکستان کی دعوت کو مسترد کرکے غیردانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ اشرف غنی صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران ان کا انتہائی پرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ افغانستان کے موجودہ حکمران بیک وقت امریکہ اور بھارت دونوں کے کٹھ پتلی کا کردارادا کر رہے ہیں۔ بلیم گیم سے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے دورۂ پاکستان میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اگر ایران اور پاکستان مسلکی و فرقہ وارانہ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے کے قریب آئیں تو یہ مسلمانوں کی خوش نصیبی ہوگی۔
پاک ایران تعلقات کو کون سی طاقتیں خراب کر رہی ہیں؟ ایران جوں جوں بھارت کے قریب ہوا‘ پاک ایران تعلقات میں خرابی دکھائی دینے لگی۔ پاکستان اور ایران دونوں کو مسلسل امریکی دبائو کا سامنا ہے۔ دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں اور دونوں ہی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ایران اورپاکستان مسلم دنیا کے اہم قلعے ہیں۔ ایران نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے اسے تسلیم کیا تھا۔ ایوب دور میں پاک ایران ترکی آر سی ڈی کا بڑا چرچا تھا۔ پاک ایران سرحد کو دہشت گردوں‘ سمگلروں اور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ بنانے کیلئے دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ جواد ظریف کی پاکستان آمد سے ان قوتوں کو پیغام چلا گیا ہے جو پاک ایران تعلقات کے مابین کشیدگی اور تنائو کی فضا قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ کلبھوشن جیسا بھارتی جاسوس اور دہشت گرد پاکستان دشمن سرگرمیوں کیلئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے مقام کو استعمال کر رہا تھا۔ ایران کو بھارتیوں کو ہرگز اجازت نہیں دینی چاہئے کہ اس کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔ ہمارا بُرا ہمسایہ بھارت ہمیں ہر حالت مں ٹف ٹائم دینے پر تلا ہوا ہے۔ بھارت نے ہمارے ساتھ کشیدگی قائم رکھنے کو اپنی مستقل حکمت عملی بنا رکھا ہے۔ جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر فائربندی کی مسلسل خلاف ورزی اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنا اس کا پرانا وطیرہ ہے۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کیلئے بھارت پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ ترک صدر بھی وزیراعظم مودی کو پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کی تلقین کر چکے ہیں۔ پاکستان نے جنگ بندی کے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی کی ہے نہ بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔ پاک فوج ایک پیشہ ورانہ فوج ہے۔ پاک فوج کسی سپاہی کی بے حرمتی کر ہی نہیں سکتی۔ ہم بُرے ہمسائیوں کے شر سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کے افغانستان سے تعلقات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔ گزشتہ ہفتوں سے دونوں ملکوں کی عسکری اور سیاسی قیادتوں کے مابین رابطوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ادھر کشمیری عوام کے خلاف بھارت نے اپنی فضائی و زمینی افواج اور اسرائیلی کمانڈوز کے ذریعے جنگی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ خواتین کی بے حرمتی‘ کمسن بچوں کے ساتھ ناروا سلوک‘ مکانات مسمار کرنے کی ظالمانہ کارروائیاں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے ساتھ تو ہوتی ہیں‘ اب بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیرمیں جاری ہیں۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ افغان فورسز نے چمن کی شہری آبادی پر بزدلانہ حملہ کیا ہو‘ اس واقعہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ حزب اسلامی کے مجاہد کمانڈر گلبدین حکمت یار 20 سالہ جلاوطنی کے بعد کابل واپس آئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ طالبان پر ان کا اثرورسوخ کتنا ہے۔ یہ بات افغانستان کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہو یا افغانستان کا‘ یہ عالم اسلام کا نقصان ہے۔ ایسے واقعات سے عالم اسلام کمزور اور عالم کفر متحد اور مضبوط ہو رہا ہے۔ افغانستان کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان نے 40 لاکھ افغانوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ پاکستان نے 1979ء میں سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد سے جس طرح افغان عوام کا ساتھ دیا وہ ایک مثال ہے۔ غیرت مندی کا تقاضا ہے کہ افغان حکومت اپنے 40 لاکھ شہریوں کو پاکستان سے واپس بلا لے۔ پاک سرزمین پر حملے کی صورت میں افغان فوج کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ مومن کی یہی شان ہے کہ وہ سر اٹھا کر چلتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...