اختلاف ثلاثہ!

1۔وطن عزیز میں اکثر اتحاد ثلاثہ تو بنتے بگڑتے دیکھے ہیں، یہ اختلاف ثلاثہ پہلی بار قائم ہوا ہے۔ ملک کی تین بڑی پارٹیاں بیک وقت ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ حکماء کا قول اور تاریخی حقیقت بھی یہی ہے کہ دو چیزیں لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں۔ باہمی مفاد اور باہمی دشمن، ان ستم ظریفوں نے اپنے فعل سے اس قول کو نہ صرف باطل کردیا ہے بلکہ تاریخ کے جبر کوبھی صبر کی تلقین کررہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ کیا فریقین واقعی سیاست کے میدان کارزار میں ’’ہل من مبارز‘‘ کا نعرہ بلند کررہے ہیں یا اس تضاد کے پیچھے منافقت اور دوغلا پن چھپا ہوا ہے!

2۔ خان اعظم جنہیں اکثر لوگ سادہ لوح خان کہتے ہی نہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں کی(NAIVETY)ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے ایک ایسی برسر اقتدار پارٹی سے ٹکرلی ہے جو اپنے آپکو قائداعظم کی مسلم لیگ کی وارث کہتی ہے۔ میاں نوازشریف کے حامی اس بات کے بھی دعویدار ہیں کہ بانی پاکستان کو اس ملک سے جو محبت تھی اس نے انہیں مرکر بھی چین نہیں لینے دیا اور انہوں نے میاں صاحب کی شکل میں ایک قائداعظم ثانی بھیج دیا۔ دبی زبان یہی سے سہی یہ لوگ نوازشریف کی فہم وفراست، عزم وہمت اور یقین کامل کا تقابل بانی پاکستان سے کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ اس ناشکری قوم نے میاں صاحب کو امیر المومنین کیوں نہیں بننے دیا۔ ایسا ہوجاتا تو ملک کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ اب تک پاکستان نہ صرف ایشین ٹائیگر بن گیا ہوتا بلکہ اس کی دھاڑ سے شیروں کے دل بھی دہل جاتے۔ آسمان سے من وسلوا نہ صرف اترتا بلکہ برستا۔ خوشحالی نے چار سو ڈیرے ڈالے ہوتے، بقول میرا من۔’’ راہی مسافر جنگل میں سونا اچھالتے جاتے اورکوئی نہ پوچھتا میاں تم کون ہو اور تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں‘‘۔ عسکری قیادت ڈسپلن کی اتنی ہی پابند ہوتی جتنے حضرت خالد بن ولید تھے۔ قاضی محض غازی ہوتے یوں پانامہ کے بخیے نہ ادھیڑتے کوئی ان سے یو چھ بیٹھتا کہ میاں صاحب کا رہن سہن، کھانا پینا، لباس بھی اسی طرح کا ہوتا، جو خلفائے راشدین کا وطیرہ تھا تو ہنس کرکہتے۔ میاں کس زمانے کی بات کرتے ہو!کیا تم چاہتے ہو کہ میاں صاحب اونٹ کی مہار پکڑے، اپنے غلام کو سوار کرکے شاہ سلیمان سے ملنے پیدل ریاض جائیں!
3 ۔عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلے کرتے ہیں اس میں کچھ دوش تازہ واردان سول سروس کے مرغان کلنگ کا بھی ہے جو تمباکو کے پائپ کی طرح منہ ٹیڑھا کرکے دریائے ٹیمز میں دھلی ہوئی انگریزی توبول لیتے ہیں لیکن انہیں سیاست اور معروضی حالات کا ادراک نہیں ہے۔ پچھلے الیکشن میں تسنیم نورانی کو ٹکٹ تقسیم کرنے پر مامور کردیا گیا۔ اس سے بڑی سادگی او رکیا ہوسکتی تھی نتیجتاً تحریک انصاف بری طرح ہار گئی۔ بعد میں دھاندلی اور پینتس پنکچروں کا الزام صدا بصحرا ثابت ہوا۔ اس ساری تگ ودو او راتہام کافائدہ صرف ایک شخص کو ہوا۔ وہ جس نے پنکچر نہیں لگائے تھے۔
میاں صاحب بوجوہ امیر المومنین تو نہیں بن پائے تھے لیکن شاہانہ مزاج ضرور رکھتے ہیں۔ اپنے حواریوں، درباریوں، کاسہ لیسوں اور ابن الوقتوں کو جس طرح انہوں نے نوازا ہے۔ اسکی مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ سیٹھی صاحب کی مفروضہ خدمات کو سراہتے ہوئے پاکستان کی کرکٹ کا مدارلہام بنادیا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں اور سابق کپتانوں نے بڑا احتجاج کیا کہ محترم نے زندگی میں کرکٹ چھوڑ گلی ڈنڈا بھی نہیں کھیلا لیکن نقار خانے میں طوطیوں کی آواز کون سنتا ہے۔ اگر عمران الزام تراشی نہ کرتے تو بھی سیٹھی صاحب کا دنیائے صحافت میں قد کاٹھ اتنا بڑا ہے کہ کچھ نہ کچھ لے کر ٹلتے۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں دبنگ صحافی کہنے پر کچھ لوگ اعتراض کریں لیکن اس حقیقت سے مفر نہیں کہ خوب لکھتے ہیں۔ انکے تبصروں میں توازن ہے۔انہیں آنیوالے کل کا ادراک بھی ہے۔ مفاد پرست سیاستدانوں کے کان مروڑنے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا میاں صاحب رہیں نہ رہیں، کوئی آئے کوئی جائے، یہ کرکٹ کے کندھوں پر سوار ہوگئے ہیں۔
4۔ بات عمران خان کی سیاست کی ہورہی تھی پتہ نہیں سیٹھی صاحب بیچ میں کیسے ٹپک پڑے ہیں۔ شاید یہ وجہ ہوکہ عمران دنیائے کرکٹ کا ایک روشن ستارہ ہے۔ سیٹھی صاحب پاکستان کرکٹ کے ملجاوماوا ہیں دونوں میں ’’گاڑھی چھنتی‘‘ ہے۔ لہٰذا ہرچند وہ مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کیے بغیر، میکاولی کو اخلاقیات کے پرچارک گو اچھا نہیں سمجھتے لیکن جو اس نے لکھا جن لوگوں کے متعلق لکھا جس معاشرے میں بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کیا، اس سے پوری طرح اختلاف بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا وہ جملہ ضرب المثل بن گیاENDS JUSTIFY MEANSخان صاحب معاشرے میں انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔ غریب اور امیر کے فرق کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ بیوروکریسی کو سیاست دانوں کے چنگل سے نکالنا چاہتے ہیں یہ سب کام اسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب وہ حکومت بناپائیں گے۔ حکومت کی تشکیل کیلئے مطلوبہ ممبران اسمبلی چاہئیں اس معاشرے میں متلی اور نور دین چاہے وہ امام مسجد ہی کیوں نہ ہوں، کامیاب نہیں ہوسکتے، کامیاب صرف ’’ہیوی ویٹ‘‘ ہوتے ہیں جنہیں عام اصطلاع میں ELECTIBLES کہا جاتا ہے۔ خان دیگر سیاست دانوں کی چالوں کو سمجھ نہیں پارہے۔ یہ اسے مختلف طریقوں سے ذرائع سے ’’تھاپڑا‘‘ مرواتے رہتے ہیں۔ خان تو راست باز ہیںکبھی ایسے ویسوں کو ٹکٹ نہ دیتے، قرائین اور شواہد سے لگتا ہے کہ خان کو اس حقیقت کا کسی حد تک ادراک ہوچلا ہے لیکن منزل ہنوز دور ہے۔ راستے پر پیچ اور کٹھن ہیں۔
6۔ کرپشن کے حوالے سے آصف علی زرداری الزامات کی زد میں ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، ثقہ لیڈر، سابقہ حکومت نہ صرف پیپلزپارٹی کی تھی بلکہ وہ صدر پاکستان بھی تھے ملک میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ نوازشریف اور زرداری میں گٹھ جوڑ ہے۔ دونوں ادھر ہم اُدھر تم کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مرکز میں باری باری کے عہد وپیمان ہوچکے ہیں۔ دونوں عمران خان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور کافی حد تک خائف بھی ہیں۔ وہ خان کو کسی صورت بھی اقتدار میں نہیں آنے دینگے۔ خورشید شاہ عمران کو لولی پاپ دیتے رہیں گے اور عین وقت پر انہیںغچہ دے جائینگے۔ اس صورت میں’’محصور‘‘ نوازشریف کو کہا جائیگا۔’’میاں ہن مک‘‘ بالفرض ایسا ہی ہے تو بھی اب مرکز میں حکومت بنانے کی باری پیپلزپارٹی کی ہے۔ کیا میاں نوازشریف مان جائینگے؟ غیر تحریر شدہ معاہدے کا پاس کرتے ہوئے حکومت زرداری کی جھولی میں ڈال دیں گے؟ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے زرداری نے ایک مرتبہ خود کہا تھا۔ معاہدے کوئی صحیفے نہیں ہوتے ۔ہمارے دوست ملک صاحب جو انگریزی بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہنے لگے:
MARYAM NAWAZ IS ANOTHER VARIABLE IN THE POLITICAL CALCULAS OF PAKISTAN BY ALL INDICATIONS SHE IS THE HEIR APPAREN
7۔ عمران کے پاس مشیروں کی پوری فوج موجود ہے کسی نے مشورہ نہیں دیا کہ یہ وقت زرداری پر شدید تنقید کا نہیں ہے یہ کام تو بعد میں کیا جاسکتا ہے اگر خان Cease fireنہیں کرسکت تو Decrease fireسے ہی کام لیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سب پارٹیاں ایک پلیٹ فارم سے ’’آپریٹ‘‘ کریں۔ صرف مقصد کو مدنظر رکھیں۔ سیاسی حریف کو ٹارگٹ بنائیں اس سلسلے میں TWO PRONGED OR THREE PRONGED ATTACKبھی کیا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن