چمن سرحد پر کشدگی برقرار مشترکہ ٹیم کا سروے مکمل پاکستانی مردم شماری ٹیم پر حملہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا : افغان چیف ایگزیکٹیو

May 09, 2017

چمن+ کابل (نیوز ایجنسیاں+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) چمن بارڈر پر پاک افغان کشیدگی برقرار اور باب دوستی چوتھے روز بھی بند رہا، ٹرانزٹ ٹریڈ، نیٹو سپلائی اور پیدل آمدورفت بھی مکمل بند ہے، باب دوستی پر پاک افغان فوجی حکام کی فلیگ میٹنگ میں سرحد کی جغرافیائی حدود کا تعین کرنے کے سلسلہ میں طے پایا تھا کہ نقشوں اور گوگل ارتھ کی مدد سے سرحد کا تعین کیا جائے گا۔ پاکستانی حکام نے دیہات کلی لقمان ، کلی جہانگیر اور گلدار باغیچہ کو پاکستانی علاقہ قرار دیا اور افغان حکام کو ان دیہات میں 1998ءکی مردم شماری ، ترقیاتی کاموں اور مقامی لوگوں کے شناختی کارڈز پر مشتمل دستاویزات پیش کیں۔ ٹیمیں اپنی رپورٹ اسلام آباد اور کابل ارسال کریں گی۔ دوسری طرف افغان فورسز کی جارحیت کے بعد پرانا چمن میں متاثرین کے لیے دو ہزار خیموں پر مشتمل بستی قائم کر دی گئی ہے۔ ایم ڈی اے کی جانب سے متاثرین میں امدادی اشیاءبھی تقسیم کی گئیں۔ دیہات سے پانچ ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی۔ پاک افغان سرحد پر پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ جیولوجیکل ٹیم نے کلی جہانگیر اور کلی لقمان میں سروے مکمل کرلیا۔ اتوار کے روز پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ ٹیموں نے کلی بادشاہ میں سروے کیا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق جغرافیائی حدود کا تعین رپورٹس کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔

کابل (جاوید صدیق) افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے بارے میں بعض معاملات پر تشویش ہے جبکہ افغاسنتان کو پاکستان کے بارے میں بعض معاملات پر شکوے ہیں۔دونوں ملکوں میں عداوت تو نہیں لیکن غلط فہمیاں ہیں جنہیں بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔پیر کے روز اپنے دفتر میں پاکستان کے صحافیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ چمن بارڈر پاکستان کی مردم شماری کی ٹیم پر حملہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ وہاں جو کچھ ہوا اچھانہیں ہوا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے میری ملاقات میں یہ طے ہوا تھا کہ جو عناصر ایک دوسرے کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں وہ کئی تعمیری منصوبوں پر ہماری مدد کر رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری پالیسیوں کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی بھارت کی مدد سے چل رہی ہے۔یہ سراسر غلط بات ہے ایس ڈی ایس امریکہ نے تشکیل دی ہے اور وہ اس کی تربیت کررہا ہے۔اگر ایس ڈی ایس پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو کم از کم امریکی ہمیں ضرور اس بارے میں آگاہ کریں گے۔بھارت سے افغانستان کے تعلقات پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ پاکستان نے سوویت یونین کے قبضے سے افغانستان کی آزادی کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کیا جسے ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ اس سوال پر کہ افغانستان سے تحریک طالبان کے عناصر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں پاکستان کی نشاندہی کے باوجود افغانستان کوئی اقدام نہیں کررہا تو افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ ہم نے کئی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ افغانستان کو سیکورٹی کے جتنے بڑے چیلنج کا سامنا ہے پاکستان کو اتنے بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس علاقے کی سپریم افواج ہیں ہے ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کریں اور ملک کی سیکورٹی کی دیکھ بھال بھی کریں لیکن افغانستان کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے۔عبداﷲ عبداﷲ سے جب پاکستانی میڈیا نے سوال کیا کہ وہ کب پاکستان کا دورہ کریں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جلد دورہ کروں گا لیکن تاریخ نہیں دوں گا۔این این آئی کے مطابق ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کہاکہ افغان مفاہمتی عمل کے لئے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک کردار ادا نہیں کر سکتا تاہم باہمی تعلقات کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں جب کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم افغانستان میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ارادہ لہذا پاکستان کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی ہدایت جاری نہیں کیں اور جو پاکستان کو نقصان پہنچائے گا وہ ہمیں نقصان پہنچائے گا جب کہ آپریشن ضرب عضب ایک اچھا اور مثبت اقدام ہے۔افغان چیف ایگزیکٹو کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی بڑا چیلنج ہے اور تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی ایک حقیقت ہے تاہم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے بڑے مسائل کا سامنا ہے، طالبان ہمارے دشمن ہیں، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے رعایت دینے کے بجائے مجبور کرنا ہوگا جبکہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اور تعاون نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی وفد کا دورہ مثبت رہا تاہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کی فضا موجود نہیں جبکہ مناسب وقت پر پاکستان کا دورہ کروں گا۔

مزیدخبریں