تحریکِ انصاف کے علی زیدی صاحب سے میری صرف ایک ملاقات ہوئی ہے۔ دوستوں سے بہت ہی محبت کرنے اور بڑے اشتیاق سے مزیدار کھانے تیار کروا کر اپنے ساتھیوں کو خلوص بھرے اصرار کے ساتھ اپنے گھر بلانے والے صحافی اویس توحید کے ہاں، عامر متین اور حامد میر بھی اس دعوت میں موجود تھے۔ رات گئے تک ہم علی زیدی سے شہرِ کراچی کی سیاست میں ابھرتے کئی نئے رحجانات کو جاننے کی کوشش کرتے ہے۔ اس ملاقات میں وہ ایک محنتی سیاسی کارکن نظر آئے۔ جذبے کے شدت کو لیکن وہ خود پر حاوی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ ٹھوس واقعات کے تناظر میں اپنی جماعت کے امکانات کو مدلل انداز میں روشن ہوتا بتایا۔
پیر کی رات لیکن میں مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کی گفتگو سن کر حیران و پریشان ہوگیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے حکیم سعید پارک میں لگائے ان کی جماعت کے کیمپ پر ”گینگ وار“ والا حملہ کیا۔ ان کے نہتے کارکنوں پر جن میں خواتین بھی شامل تھیں گولیاں چلائیں۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگائی۔ علی زیدی کے لگائے الزامات کی صداقت طے کرنا میرا حق نہیںکراچی میں ہوتا تو شاید جائے وقوعہ پر بذاتِ خود جاکر حقائق جاننے کی کوشش کرتا چند عینی شاہدوں پر بھی انحصار کیا جاسکتا تھا۔ حقائق جانے بغیر حیرت مجھے علی زیدی صاحب کی زبان اور لہجے کی بابت ہوئی کئی بار خوشِ جذبات میں انہوں نے کچھ ایسے الفاظ بھی استعمال کئے جنہیں Beep لگاکر ناقابلِ سماعت بنانا پڑا۔ اشتعال کی حالت میں تلخ زبان کا استعمال بسااوقات فطری ہوتا ہے۔ آج سے چند برس قبل تک طیش میں زبان پر قابو رکھنا مجھے بھی نہیں آتا تھا۔ وہی تباہی بکنا شروع ہو جاتا تھا۔
ایک پیغام مگر علی زیدی صاحب اپنی جوش بھری گفتگو میں بھی بہت سوچ سمجھ کردیتے اور دہراتے چلے گئے۔ان کا دعویٰ تھا کہ کراچی میں تحریک انصاف کے لگائے کیمپ پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی جانب سے ہوئے مبینہ ”حملے“ کے بعد خیبرپختونخواہ میں بہت اشتعال پھیلا ہے۔ اس واقعے کے بعد پیپلز پارٹی خیبرپختونخواہ میں اب کوئی جلسہ نہیں کر پائے گی۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوئے مبینہ سلوک کا ”بدلہ“ گویا خیبرپختونخواہ میں لیا جائے گا۔
زیدی صاحب بادشاہ آدمی ہیں جس صوبے پر وہ حق ملکیت جتارہے ہیں وہاں پی ٹی آئی کو 2013کے انتخابات کے بعد ایک مخلوط حکومت بنانا پڑی تھی۔ اپنے 20کے قریب ایم پی ایز کو سینٹ کے انتخابات میں بھاری رقوم لے کر دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے الزامات لگانے کے بعد اپنی جماعت سے نکالنے کے بعد تحریک انصاف صوبائی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت بھی نہیں رہی پرویز خٹک فی الوقت ایک اقلیتی حکومت کے سربراہ ہیں۔ انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا تردد اس لئے نہیں کیا جارہا کہ تازہ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ محض دو ہفتوں کے لئے صوبائی اسمبلی سے کوئی شخص ان کی جگہ وزیر اعلیٰ بننے کو تیار نہیں۔ انتخابی سیاست کے حقائق سے قطع نظر تحریک انصاف خیبرپختونخواہ میں مقبول ترین جماعت ہوبھی تو اس صوبے میں مخالف جماعتوں کے جلسوں پر حملوں کی روایت ہرگز موجود نہیں ہے۔ مہمان نوازی اس صوبے کی سب سے بڑی پہچان ہے۔باچا خان اور ان کی تحریکِ خدا ئی خدمت گار کے بارے میں ہزاروں اعتراضات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ انہوں نے برسوں کی لگن سے اس خطے میں عدم تشدد کی روایت کو فروغ دیا۔
اس صوبے کے سیاسی کلچر سے بہت آشنا ہونے کے باوجود عمر کے اس حصے میں بھی اکثر مجھے اس وقت خوش گوار حیرت ہوتی ہے جب شادی کی کسی دعوت میں آفتاب شیرپاﺅ، اسفندیار ولی یا مولانا فضل الرحمن جیسے قدآور سیاسی رہ نما اپنے بدترین سیاسی مخالفین کے جھرمٹ میں گھرے چٹکلہ بازی میں مصروف ہوتے ہیں۔
چارسدہ کی سیاسی Territoryمیں آفتاب شیر پاﺅ اور اسفندیار ولی ایک دوسرے کے ازلی ”شریک“ ہیں۔ میرے ان دونوں سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ ان دونوں کو اس بات کا علم ہے اور میری موجودگی میں وہ ایک دوسرے کے خلاف گفتگو نہیں کرتے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی مجھ سے اکیلے میں یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کا مخالف کیا سوچ رہا ہے۔ کونسی سیاسی چال چلنے کے چکر میں ہے۔ مختصراًََ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بحیثیت ایک لاہوری مجھے خیبرپختون خواہ کی سیاسی روایت اور برداشت کی وسعت پر رشک آتا ہے۔ پشتونوں کا بدقسمتی سے ایک غلط Profileبناکر کئی برسوں سے پروموٹ کیا گیا ہے۔ طالبان سے جڑی وحشت اور دہشت گردی نے اس منفی Profile کو مزید تقویت پہنچائی۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس صوبے سے ”نیا پاکستان“ بنانے کی دھن میں مبتلا ہوکر ابھرے تحریک انصاف کے چند جواں سال رہ نماﺅں نے پشتون ثقافت کے بارے میں پھیلے یا پھیلائے اس بے بنیاد مگر منفی تاثر کو درست ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مراد سعید کی قومی اسمبلی میں اچھل کود پشتون روایات کی ہرگز نمائندہ نہیں۔ قطعاََ چھچھورا پن ہے۔
پشتون نوجوانوں کی ایک تنظیم حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس کی پھیلائی سوچ کے چند پہلوﺅں سے مجھے بھی سو اختلافات ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس سنانے کو بہت تلخ داستانیں ہیں۔ یہ داستانیں سناتے ہوئے بھی لیکن وہ اپنی آواز بلند نہیں کرتے دھیمے لہجے میں دلائل کے ساتھ اپنا کیس پیش کرتے ہیں ان کے ساتھ مکالمہ بحث وتکرار کے بجائے علمی مناظرہ بن جاتا ہے۔
علی زیدی نے پیپلز پارٹی کے لئے خیبرپختون خواہ کو ”نوگوایریا“ بناتے ہوئے اس صوبے کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس کی شاندار سیاسی روایات کے بارے میں قطعی لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سچی بات ہے ان سے ہوئی صرف ایک ملاقات کے بعد مجھے ان سے ایسے رویے کی توقع نہیں تھی۔ یہ کالم اس حوالے سے فقط دُکھ کا اظہار ہے۔
٭٭٭٭٭
پشتونوں کی برداشت و تحمل روایت ”تبدیلی“ کی زد میں
May 09, 2018