یہ بحث شاید زیادہ طوالت اختیار کر جائے کہ دنیا کے ہر نظام اور ہر ملک میں حصول اقتدار کا مقصد عوام کی خدمت اور اپنے ملک کی ترقی ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ لوگ جو خود کو اس مقصد کو پا لینے کا اہل سمجھتے ہیں وہ مروجہ اصولوں کو ا پنا کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں کیونکہ لایعنی بحثوں بودی دلیلوں، اکا دکا شہادتوں، تاریخی سچائیوں اور خود غرضانہ اپروچ کے حوالے حصول اقتدار کے اس مقصد یا سیاست کو عبادت سمجھنے اور سمجھانے والوں کو اگر کلین بورڈ نہ بھی کیا جا سکے تو بھی کرکٹ کی زبان میں اس پر ”ریویو“ ضرور بنتا ہے مگر پاکستان کے تو آئین میں اقتدار کو اللہ تعالی کی طرف سے مقدس امانت قرار دیا گیا ہے اور اس کے احکامات کے دائرہ میں اپنے اختیارات استعمال کرنے سے اغماض آئین شکنی میں آتا ہے جس کی سزا اس آئین میں موت رکھی گئی ہے مگر آئین سے عدم واقفیت سے بھی زیادہ عدم دلچسپی نے پاکستان کے آئین کا جو حلیہ بگاڑا ہے اس کے تقدس اور روح دونوں کو جس طرح مجروح کیا گیا ہے آج پاکستان کے جملہ مصائب و مسائل کی ”روٹ کاز“ یہی جرم ہے جو عوام الناس سے بالعموم اور ملک کی قیادت سے بالخصوص سرزد ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ اس جرم کی وجہ سے آئینی، قانونی، معاشی، معاشرتی، مذہبی یا مسلکی سبھی رویوں میں ایسی مخیرالعقول تبدیلی بلکہ تبدیلیاں آ چکی ہیں کہ بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ شاید یہاں کبھی بہتری نہیں آ سکتی اور تباہی و بربادی سے بچنے کے لئے اب کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ (مختلف نعروں، وعدوں اور حسین خوابوں کو دکھانے والے حکمران اس ملک کے بدنصیب عوام کو جتنی بار دھوکا دے چکے ہیں وہ دھوکا کھانے بلکہ بار بار دھوکہ کھانے کے بعد پھر ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتے ہیں دھوکہ کھا لیتے ہیں یا شاید ان کے پاس دھوکا کھانے کے علاوہ آپشن ہی کوئی نہیں بچا۔) وہ بے بسی کو اپنے اوپر مسلسل حملہ آور ہوتے دیکھ کر اپنی قوت مدافعت کھو بیٹھے ہیں یا ان کی ”ول پاور“ اس بے بسی کو بے بس کرنے کیلئے آمادہ و تیار ہی نہیں ہوتی۔
معجزوں کے انتظار میں مسلسل دھوکے کھاتے گئے اور وقت ضائع کیا گیا لایعنی بحثوں میں کود پڑنے کی لاعلاج بیماری نے ایک اور غلط سوچ کو پنپنے کا موقع دیا اور وہ سوچ یہ ہے کہ معاشرہ میں بہت آگاہی آ گئی ہے۔
اب ربع صدی یا نصف صدی قبل والا نہ پاکستان ہے اور نہ ہی پاکستانی لوگ، اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں مگر اس حقیقت کو کون تسلیم کرے گا کہ لوگوں میں پہلے کی نسبت اب شعور و آگہی زیادہ ہے بلکہ معاملہ واقعتاً اس کے برعکس ہے پہلے لوگوں کو چند شعبدہ باز سیاستدان، لبادہ اوڑھ کر ٹھگ لیتے تھے اور اب تو بڑے بڑے ٹھگ سیاست کیا مذہب، معاشیات، اخلاقیات، عمرانیات، صحافت یا ابلاغ عامہ میں سے کوئی بھی اوڑھنی اوڑھ میں کسی بھی شعبہ کا ماہر ہونے کا یکطرفہ اعلان کر دیں ان کے دست دھوکہ دہی پر اتنی عقیدت اور اطاعت سے بیعت کر لیں گے کہ سپاہی کو پیر سپاہی بنا کر ہوائی پھونکوں سے اپنے ہاتھ میں پانی کی بھری ہوئی بوتلوں کے ڈھکن اتار کر پھونکیں مروانے والے اور مختلف بیماریوں سے شفایاب ہونے والے آپ کے اردگرد خودساختہ کرامات اور شفایابی کے ایسے ایسے قصے سنائیں گے کہ اچھا بھلا آدمی اپنی غرضوں کو پورا کرنے کے لئے ادھر کا رخ کرے گا۔
کوئی پیر سپاہی ہو یا ڈبل شاہ آخر کون سی آگاہی ہے جس کا دعویٰ کرنے والے اپنے اس دعویٰ کو سچا ثابت کر سکتے ہیں اور ان کے ہاتھوں لٹنے والوں یا ان کی اندھی عقیدت میں بے منزل اور بے ثمر سفر کرنے والوں کو آگاہی کا سرٹیفکیٹ دیں گے۔
مجھے یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند کی پٹاری سے رازوں کے سانپ نکالنے کے لئے شہر شہر اور قریہ قریہ ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اپنے پیچھے لگایا تھا وہ تاشقند کے راز کے افشا کے لئے اکٹھے کئے ہوئے لوگوں کو جب اپنی جذباتی باتوں اور جھوٹے وعدوں میں الجھا کر تاشقند کا راز ظاہر کئے بغیر جلسہ ختم کرکے سٹیج سے اتر جاتے تو لوگوں کو ان کے جانے کے بعد ہوش آتا کہ جس نے تاشقند کے معاہدہ کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دینے اور اسے بے نقاب کرنے کے وعدہ پر اتنے لوگوں کا مجمع لگایا تھا وہ وعدہ ایفا کئے بغیر جلسہ سے جا چکے ہیں اور جاتے جاتے ایک نئے شہر میں اس راز کو ظاہر کرنے کا اعلان بھی کر گئے ہیں وہ دراصل دھوکا دے گئے ہیں بھٹو کی سحرانگیز شخصیت کی تعمیر میں سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی سیاسی تربیت کے علاوہ اس تعلیم کا بھی عمل دخل تھا جو انہوں نے بہترین یونیورسٹی سے حاصل کی تھی ان کی منہ زور خواہشات کی تکمیل کے لئے وسیع المطالعہ ہونا ان کے کام آ رہا تھا ان کی خدادا ذہانت میں سے فکر و فریب زیادہ پھل پھول کر اس کی شخصیت پر ”ایول جینئس“ کی مہریں لگانے والے اس کے سیاسی مخالفین کو موصوف کے قد کاٹھ کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا ان کے اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے ایک لمبے عرصے کی صبر آزمائی بھی جو صدر ایوب کے سامنے سیاسی دو نمبری کرتے کئی سالوں پر محیط تھی، بھٹو کی عوامی سطح پر پذیرائی میں بہت سودمند ثابت ہو رہی تھی۔
بطور وزیر خارجہ ان کی سوجھ بوجھ سے زیادہ ان کے اپنے حق میں پراپیگنڈا کرنے اور خود کو عالمی سطح پر منوانے کے سارے حوالے ان کی شخصیت سازی اور عوام کو پیچھے لگانے میں کام آ رہے تھے مگر ڈبل شاہ یا پیر سپاہی تو جعلسازی یا دو نمبری کے لئے کسی آکسفورڈ میں نہیں پڑھے تھے ان کا تو یہ ایکسپوژر نہیں تھا ان کے پاس تو کسی تاشقند کے ایسے راز ظاہر کرنے کی آپشن نہ تھی جس سازش میں وہ خود بھی شریک جرم قرار دیئے جا سکتے تھے۔ بھٹو یا کسی سیاسی لیڈر کا کسی پیر سپاہی یا ڈبل شاہ سے کسی طرح مقابلہ نہیں بنتا لیکن پاکستان کی حالت آگہی اور کسی کے پیچھے لگنے کے حوالے سے یہ تقابل کیا جا سکتا ہے ان سیدھے سادھے لوگوں کو سیاست دان بیوقوف بلکہ گدھے سمجھتے ہیں اور وہ خود کو بہت ہی ہوشیار سمجھتے ہیں حکمرانوں کو الا ماشاءاللہ جھوٹ بولنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ اسی عادت کے باعث ان کی یادداشت جواب دے جاتی ہے۔
فوجی آمر کی گود میں سیاسی آنکھ کھولنے والا بھی فوجی آمریت کے ساتھ ساتھ اپنے مربی و محسن کو بھی آمر کہہ کر گالی دیتا ہے اور یہی اس کی جمہوریت سے محبت یا طاقتور حوالہ بن جاتا ہے۔ بھٹو نے ایوب خان کو ڈیڈی کہنے سے لیکر ایوب .... ہائے ہائے کے نعرے لگوانے تک جس راز سے پردہ اٹھانے پر ساری سیاسی بساط بچھائی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ بھارت کے وزیراعظم شاستری اعلان تاشقند پر دستخط کرنے کے بعد بھارت میں اپنے گھر کے باہر شاستری کو بھارت کے مفاد کا سودا کرنے والا ہندو کہنے والوں کے احتجاج پر ہی دل برداشتہ ہو کر دل کے دورہ میں جان کی بازی ہار گئے تو پھر اگر بھارت اس معاہدہ کی رو سے نقصان اٹھانے والا تھا تو فائدہ تو لامحالہ پاکستان کا ہوا مگر بھٹو نے صورت حال کو اپنے سیاسی کیریئر کے لئے سب سے اہم موقع قرار دیا کہ وہ شاستری کی موت کو صدمے سے مرنے کی بجائے اگر خوشی سے مرنا ثابت نہ کر سکے تو اسے فطری موت کا رنگ ضرور دے لیں گے اور وہ اس میں لوگوں کی جذباتیت اور حقائق سے بے خبری کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں اقتدار کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے اس کے لئے جوڑ توڑ، سازشیں، قومی مفادات پر ہتھوڑے چلانے والے غیر شائستہ اقدامات اور ہر حال میں ذاتی مفاد اور اقتدار کے حصول کے لئے ہر سطح پر جانے والے بھٹو نے سیاسی اصولوں اور بین الاقوامی رویوں کی جو مٹی پلید کی وہ ان کے بعد آنے والے اکثر حکمرانوں کو اقتدار میں آنے یا لانے اور اقتدار بچانے کے لئے ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر قبول کرنا پڑا اور پھر بے اصولیوں کی جو فصل بھٹو نے بوئی اسے ان کے حامی اور مخالف سبھی اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے رہے بس یہی دنیا ہے ٹھگوں کی دنیا مگر اسی ٹھگوں کی دنیا میں بھی سیانے ہیں، انہیں تلاش کر لیجئے دنیا بدل جائیگی۔