اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کے دفتر سے منسلک سرکاری وکیلوں کی جانب سے سرکاری محکموں سے بھی کیس کی فیس لینے پر متعلقہ حکام سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سرکاری وکیل تنخواہ کے بعد سرکاری محکموں سے فیس کیسے لے سکتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرلز سرکاری محکموں سے فیس لے رہے ہیں، 14سرکاری وکلاء نے فیس کی مد میں کروڑوں روپے وصول کئے ہیں، اگر مان لیا جائے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نجی پریکٹس کر سکتے ہیں لیکن مگر سرکاری اداروں سے فیس نہیں لے سکتے، سوئی گیس، ایف بی آر کے سرکاری اداروں سے ایڈیشنل اٹارنی جنرلز نے فیس لی ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مجھے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا موقع دے میں تحقیقات کرتا ہوں ، چیف جسٹس نے کہا کہ سوئی گیس سے پچاس لاکھ روپے فیس لی گئی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کے 14 لوگ سرکاری اداروں سے فیس لے رہے ہیں، کس اتھارٹی کے تحت فیس لے رہے ہیں، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وزارت قانون معاملہ پر جواب داخل کرے، اٹارنی جنرل، سرکاری لاافسر بھی تحریری جواب دیں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون میں ابہام موجود ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ قانون میں کوئی ابہام موجود نہیں، ذمہ دار کو نہیں چھوڑ یں گے لا افسروں کے بینک اکائونٹ کو بھی دیکھیں گے، سرکاری اداروں سے بھی پوچھیں گے کس کس نے فیس ادا کی اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام سرکاری اداروں کو خط لکھا ہے، اداروں سے فیس ادا کرنے بارے رپورٹ مانگی ہے۔