علی ظفر،میشا کیس: خود طے کرینگے کہ گواہان کے بیانات کیسے لیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ گواہان کے بیانات کیسے لینے ہیں یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے۔فیصلہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔

عدالت کے یہ ریمارکس میشا شفیع کے خلاف علی ظفر کے ہتک عزت کے دعوی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئے ۔

میشا شفیع کی درخواست پر سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے کی ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے میشا شفیع کے وکیل سے مکالمے میں کہا  آپ کیا چاہتے ہیں کہ تمام گواہان کے بیان ایک ساتھ ہوں؟ آپ چاہتے ہیں تمام گواہان پر جرح بھی ایک ساتھ ہو؟آپ کس قانون کے تحت چاہتے ہیں کہ تمام گواہان کے بیان ایک ساتھ ہوں؟جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ عدالت  نے طے کرنا ہے گواہان کے بیان کیسے لینے ہیں۔عدالت آپ کی خواہش کے مطابق گواہوں کے بیان نہیں لے سکتی۔ آپ متعصب ہو رہے ہیں۔

میشا شفیع کے وکیل نے کہا ہم چاہتے یہ واضح ہو سکے کہ جیمنگ سیشن میں کیا ہوا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا بیانات کیسے ریکارڈ کروانے ہیں اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے میشا کے وکیل سے استفسار کیا آپ کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے وکالت کرتے ہوئے؟

میشا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں گیارہ سال ہو گئے ہیں وکالت کرتے ہوئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن بولے کیا آپ نے کبھی گیارہ سال میں کبھی دیکھا ہے کہ پہلے سب کے بیان ریکارڈ ہوں اور اسکے بعد جرح کی جائے؟میرے تیس سالہ عدالتی تجربے میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

میشا شفیع کے وکیل نے کہا وہ  کئی عدالتی فیصلوں کی نظیریں دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نہیں دے سکتے کیونکہ صفر عدالتی نظیریں ہیں۔

میشا شفیع کے وکیل نے کہا کئی فیصلوں میں عدالت یہ بات کر چکی ہے۔

اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا عدالتی فیصلے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے۔فیصلہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔

علی ظفر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گیارہ گواہان میں سے ایک گواہ کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئیندہ ہفتے تک کیلئے ملتوی کر دی

یاد رہے ماڈل اور گلوکارہ میشا شفیع  نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں 12اپریل کو چیلنج کیا تھا۔

میشا شفیع نے ہرجانہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گواہان پر جرح کرنا بنیادی قانونی حق ہے۔

میشا شفیع نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ گواہان پر جرح کی اجازت دیکر ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے۔

انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے گواہان پر جرح مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ گواہان پر جرح بیان کے فوری بعد ہوگی۔

درخواست میں کہا گیا کہ گواہان پر جرح کرنا بنیادی قانونی حق ہے، ان کو جانے بغیر صرف ان کے بیان کی بنیاد پر جرح کرنا ممکن نہیں، گواہ پیش کرنا ایک فریق اور اس پر جرح دوسرے فریق کا حق ہے۔

درخواست میں معروف گلوکارہ نے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...