کھربوں پتی ارکان پارلیمنٹ اور کرونا وائرس؟

پاکستان سمیت کرۂ ارض کے تقریباً سبھی ممالک کے حالات کچھ یوں ہیں کہ ناگہانی آفت کرونا وائرس سے عوام کو بچانے کیلئے اپنی اپنی جگہ ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں، اس ہولناک وباء کی طرف سے امیر و غریب ممالک میں جو موت کا رقص جاری ہے، اس کے نتیجے میں اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات سے ترقی پذیر اور غیرترقی یافتہ ممالک اور ان کے عوام کی اقتصادیات کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان کے ایسے 40فیصد عوام کے علاوہ بھی ایک بدقسمت طبقہ سفید پوشوں سے عبارت ہے جو کروڑوں گھرانوں پر مشتمل ہے، یہ کم تنخواہ پانے والا طبقہ ہے جو اپنی محدود ماہانہ آمدنی کے باعث ہر ماہ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کے باعث قرض لیکر بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ بدقسمتی سے کروڑوں افراد سے عبارت ملک کے اس سفید پوش لوگوں کا کسی بھی پرآشوب دور میں ایوان اقتدار کے مکینوں نے ضروریات و مصائب کا احساس نہیں کیا ، اسی لئے اس سفید پوش طبقے کابھی اقتصادی بدحالی کے باعث ملک کی خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والی 40فیصد اکثریت میں شمولیت کا راستہ ہموار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
پاکستان کے ایسے معروضی حالات میں موجودہ حکومت اور اس کے اعضاء و جوارح کی طرف سے عالمی وباء کے باعث تلپٹ گھریلو اقتصادی معاملہ کو سنبھالا دینے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، اسے لاکھ حوصلہ افزا کہا جائے مگر جس ملک میں عام حالات کے ہوتے ہوئے بھی غربت کے مارے عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے تمام تر انتظامات کرنے سے حکومت اپنے وسائل محدود ہونے کے باعث قاصر ہو وہاں کسی ناگہانی آفت کے حالات میں تمام حکومتی وسائل جھونکنے پر بھی حالات کی اصلاح کی توقع یقینا عبث ہوگی۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے، اس کی روشنی میں یہ حقیقت کھل کر آشکار ہوچکی ہے کہ موجودہ عالمی وباء نے پاکستان کو واضح طور پر ایسے کربناک حالات سے دوچار کر دیا ہے جس میں ملک کے کروڑوں مفلس و قلاش اور سفید پوش عوام بے یارومددگار ایک طرف اور دوسری طرف اس غریب ملک کے لاکھوں ایسے آسودہ حال خاندان دوسری طرف الگ تھلگ تماشائی بن کرکھڑے ہیں جنہوں نے اسی ملک کے وسائل سے کمایا، اپنے اثاثوںمیں بے تحاشا اضافے کئے۔ کبھی نانِ جویں پر گزارہ تھا، پر الیاں اٹھاتے رہے۔ بلاشبہ اسے وہ محنت کا نام بھی دیتے ہوں گے مگر اسی ملک کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والے قومی خزانے اور قومی مالیاتی اداروں سے انہوں نے ہرجائز اور ناجائز ذرائع سے کثیر زر کے بھاری قرضے حاصل کئے، جس سے وہ کارخانوں ، ملّوں ، فیکٹریوں حتیٰ کہ زرعی فارم ہائوسوں اور بڑی بڑی ہائوسنگ کالونیوں کے بلاشرکتِ غیرے مالک مختار بن بیٹھے ۔ یہ سبھی لوگ آفت کی گھڑی میں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ان کے اثاثوں کی تفصیلات قومی الیکشن کمیشن کی طرف سے کئی بار جاری بھی ہو چکی ہے۔ ایسی تفصیلات کی روشنی میں یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان میں بہت سے کھربوں اربوں کے مالک ہیں، کوئی بیرونی ممالک میں اربوں ڈالروںکے اثاثے رکھتے ہیں، کئی کھرب پتی ہیں، ارب پتی ہیں، لاتعداد اس قدر کروڑ پتی ہیں کہ اثاثے اربوں کو چھونے والے ہیں۔ ان میں شوگر ملوں کے مالکان کا الگ گروپ ہے۔ پیپرز ملوں کے مالکان ہیں۔ ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان کی الگ کھیپ ہے۔ وسیع زرعی اراضیات اور بڑے شہروں میں انتہائی قیمتی رہائشی کوٹھیوں اور پلاٹوں کی بھرمار بھی ایسے ہی غمخواروں کے حصے میں ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں کے قرب و جوارمیں لاکھوں ایکڑ انتہائی بیش قیمت زرعی اراضی جس طرح اونے پونے لے کرایک طرف شہری آبادیوں کو مناسب قیمتوں پر دستیاب ہونے والی سبزیوں اور دیگر اجناس سے محروم کیا گیا وہاں مخصوص ذہن کے حریص زر ایسے ہی بااثر طبقے نے ہائوسنگ سکیموں کے قیام سے اپنی تجوریاں بھریں۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ متذکرہ کھربوں ، اربوں ، کروڑوں اسی ملک سے کمانے والوں نے ملوں، فیکٹریوں ، کارخانوں اور بڑے بڑے زرعی فارموں کے مالک بن جانے والوں نے پاکستان اور اس کے عوام کو حالیہ مصیبت کے ایام میں سنبھالا دینے کے لئے رتی بھر انفرادی طور پر کوئی مدد کی نہ کسی ریلیف فنڈ میں قابلِ ذکر امداد دی، گویا اس تمام قماش سے عبارت کھیپ کو سانپ سونگھ گیا ہوکہ انہوں نے انفرادی طور پرملک میں بدترین قسم کی اقتصادی بدحالی سے دوچار بھوکے ننگے ہموطنوں اور سفیدپوش طبقے کے بگڑتے اقتصادی حالات کو سنبھالا دینے کے لئے اپنا انسانی یا دینی فریضہ ادا کرنے سے دانستہ طور پر انحراف کیا۔ حیرت ہے کہ متمول ترین اورصاحب مال و دولت لوگوں کو اس حوالے سے مصیبت کی گھڑی میں اپنا دھن عوام کیلئے وقف کر دینے کی تلقین کرنے کی بجائے مختلف سیاسی قیادتوں کی طرف سے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر حیلوں بہانوں سے سعی ناکام جاری رکھی جا رہی ہے اور اس راہ میں اکثر سیاسی رہنمائوں کی طرف سے عوام کو مشکلات و مصائب سے نجات دلانے میں مثبت تجاویز حکومت کو دینے کی بجائے تنقید کی تان موجودہ برسراقتدار قیادت کے مستعفی ہونے پر توڑی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے تو بغیر کسی ثبوت یہ بے پر کی اڑا دی ہے کہ ملک میں نام کی عمران خان کی حکومت ہے۔ گزشتہ دنوں نوائے وقت میں وقاع نگار خصوصی کے حوالے سے شائع شدہ بیان میںمولانا فضل الرحمن نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت عمران خان نہیں کوئی اور چلا رہا ہے، تمام فیصلے غیرمنتخب افراد کر رہے ہیں۔ جس ملک میں سیاسی جماعتوںکے سربراہوں کی جرأت و ہمت کا یہ عالم ہو کہ وہ یہ بات ان کی سوچ اور سمجھ سے باہر ہو کہ ملک کون چلا رہا ہے اور اگر وہ جانتے ہیں مگر قوم کو نام بتاتے ہوئے ڈر اور خوف کھاتے ہوں تو وہ کس منہ سے عوام کی رہنمائی کادعویٰ کرسکتے ہیں۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ گزشتہ دنوں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی پریس کانفرنس منعقدہ کراچی میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جو یقینا بلاول بھٹو اور فضل الرحمن کے مابین رابطوں کا نتیجہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن