انسانی تاریخ کی سب سے بڑی وبا کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عالمی میڈیا اس موذی وبا کے سلسلے میں عوام کو آگاہ بھی کر رہا ہے مگر اس کے باوجود بعض لوگ سازشی تھیوریوں میں مصروف ہیں اور کرونا وائرس کو ایک ڈرامہ قرار دیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔ دنیا بھر میں 2 لاکھ 70 ہزار انسان اس وبا کا شکار ہوچکے ہیں۔ تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 90 ہزار ہیلتھ ورکرز بھی اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بڑی مشکل سے اس مرض سے بچ سکے۔ سندھ کے گورنر اور قومی اسمبلی کے سپیکر کورونا مرض میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی سپر طاقت امریکا کو اس وبا نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ وہاں پر ہر روز دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک انسان جاں بحق ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمارا فرض ہے کہ ہم کورونا وائرس کے سلسلے میں سنجیدگی اختیار کریں اور اس سے بچنے کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں جیسا کہ احمد فراز نے کہا تھا۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
وزیراعظم عمران خان کی گورننس سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں موثر اور فعال نظر آرہی ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھنے کی بجائے ان اختیارات کو تقسیم کیا ہے۔ وہ کابینہ سے مسلسل مشاورت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بااعتماد ساتھیوں کو مختلف شعبوں کے اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ مشاورت کا وسیع عمل جاری ہے جس کی بنا پر ریاست کے ادارے چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اقتدار اور اختیارات کا ارتکاز ہمیشہ ریاست اور عوام کے لئے نقصان دہ ہوا کرتا ہے۔ گڈ گورننس کی لازمی شرط یہ ہے کہ جس کو ذمہ داری دی جائے اسے اتھارٹی بھی دی جائے اور اس کا احتساب بھی کیا جائے۔ وزیراعظم کے دست راست اور قابل اعتماد ساتھی اسد عمر آج کل وزیراعظم کے بعد سب سے زیادہ فعال سرگرم اور متحرک نظر اتے ہیں۔ اپنی وزارت منصوبہ بندی کے علاوہ وہ کورونا وائرس کے سلسلے میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی سربراہی بھی کر رہے ہیں جو تھکا دینے والی اہم قومی ذمے داری ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق وہ ریاست اور حکومت کی دوسری ذمہ داریاں بھی پوری کر رہے ہیں۔ ان کا موجودہ فعال کردار سینئر وفاقی وزیر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ وہ پاکستانی قوم کو وائرس کے سلسلے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ این سی او سی کے اجلاس روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ جس میں چاروں صوبوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں جن سے مشاورت کی جاتی ہے اور ان کو وفاقی حکومت کے اقدامات کے بارے میں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ قومی یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اسد عمر کا کردار قابل ستائش ہے۔
اسد عمر نے اپنی ایک پریس بریفنگ میں قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا۔’’کرونا وائرس سے 18 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ بیس سے ستر ملین افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔صرف اپریل کے مہینے میں حکومت کو 119 بلین روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اگر لاک ڈاؤن ن مزید جاری رکھا گیا تو پاکستان میں 10 لاکھ چھوٹے کاروبار ختم ہو سکتے ہیں۔ پاکستان بھر میں آئی سی یو وارڈز میں پانچ ہزار بیڈ موجود ہیں جن میں سے پندرہ سو بیڈ کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ جون تک وینٹی لیٹرز کی تعداد دو ہزار تک ہو جائے گی جبکہ فی الحال 35 مریض وینٹیلیٹر پر ہیں۔ ہر چند کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور شرح اموات بھی بڑھی ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالی کا خاص فضل و کرم ہے کہ پاکستان کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے ممالک سے بہت بہتر ہے۔‘‘ اسد عمر نے راقم کو بتایا کہ حکومت عوام کو حفاظتی تدابیر کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ پر وسیع پیمانے پر مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بدقسمتی سے قومی یکجہتی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ آئین پاکستان کی صورت میں ریاست کے پاس چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے اسی آئینی نظام کی وجہ سے عدلیہ حکومت کی نگرانی کر رہی ہے اور سپریم کورٹ نے خبردار کیاہے کہ اگر حکومت نے کورونا وائرس کے سلسلے میں یکساں پالیسی نہ بنائی تو عدالت عبوری حکم جاری کرنے پر مجبور ہو گی۔ عدلیہ کے اس انتباہ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور اب وفاق اور چاروں صوبوں کی حکومتوں نے مل کر لاک ڈاؤن کے سلسلے میں یکساں پالیسی بنائی ہے جس پر 9 مئی سے عملدرآمد شروع کیا جائے گا-
وزیراعظم پاکستان اور ان کے رفقاء نے این سی او سی کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کو دوسرے مرحلے میں داخل کیا جا رہا ہے اور چاروں صوبوں سے مشاورت کے بعد متفقہ فیصلے کے مطابق چھوٹی مارکیٹوں اور دکانوں کو کھولاجائے گا تاکہ تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں شروع کی جاسکیں۔ اعلان کے مطابق ادویات اور خوراک کی دکانوں کے علاوہ باقی تمام دکانیں ہفتے میں دو دن مکمل طور پر بند رہیں گی - پاکستان بھر کے تعلیمی ادارے پندرہ جولائی تک بند رکھے جائیں گے- لاک ڈاؤن کو مزید نرم کرنے سے پہلے حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالزکو فی الحال بند رکھا جائے تاکہ پاکستان کے عوام ایک ہی جگہ پر جمع نہ ہو سکیں اور کرونا وائرس کو کنٹرول میں رکھا جاسکے -
کرونا وائرس کے بارے میں کوئی بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے خاتمے میں کتنا عرصہ لگے گا لہٰذا پاکستان کے عوام کو قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انہیں کرونا وائرس کے ساتھ جینا ہوگا اور حفاظتی تدابیر پر سختی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا -اگر پاکستان کے عوام کچھ عرصے کے لیے ہی سہی کرونا کلچر اپنا لیں تو ہم سب انشاء اللہ مل کر کرونا سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم سب کو چاہیے کہ کسی سے ہاتھ نہ ملائیں کم از کم 6 فٹ کا فاصلہ ضرور رکھیں سینیٹائزر استعمال کریں اور صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں صفائی کا خیال رکھیں۔ ماسک کا استعمال تو اولین شرط ہے۔ یہی وہ حفاظتی تدابیر ہیں جن پر عمل کرکے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ ملت کا مقدر اور مستقبل عوام کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔